ترجمہ آج کی ضرورت ہے، اس میں روزگار کے مواقع ہیں: پروفیسر گلریز

Story by  اے ٹی وی | Posted by  Shah Imran Hasan | Date 27-07-2022
ترجمہ آج کی ضرورت ہے، اس میں روزگار کے مواقع ہیں: پروفیسر گلریز
ترجمہ آج کی ضرورت ہے، اس میں روزگار کے مواقع ہیں: پروفیسر گلریز

 

 

آواز دی وائس،علی گڑھ

علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) کے ویمنس کالج کے ہندی سیکشن اور گلوبل انیشیٹو آف اکیڈمک نیٹ ورکس (گیان) کے پانچ روزہ کورس کا افتتاح اے ایم یو کے پرو وائس چانسلر پروفیسر محمد گلریز نے کیا۔اس موقع پر ماہرین نے ترجمے کے مختلف پہلوؤں پر گفتگو کی اور ترجمے میں روزگار کے امکانات سے روشناس کرایا۔

افتتاحی تقریب میں اپنے صدارتی خطاب میں پروفیسر محمد گلریز نے کہا کہ ترجمہ دوسرے ممالک سے تعلقات کو مضبوط بنانے کا کام کر رہا ہے اور ترجمہ ہندی زبان کو عالمی سطح پر شناخت فراہم کر رہا ہے۔ سوشل میڈیا کے انقلاب نے ترجمے میں روزگار کے مواقع پیدا کیے ہیں۔ انھوں نے کہاکہ آج ہندی زبان کو بیرونی ممالک میں بھی اپنایا جا رہا ہے، یہ سب ترجمہ کی بدولت ممکن ہوا ہے۔

امریکہ کی مشی گن یونیورسٹی سے تعلق رکھنے والی محترمہ پریم لتا ویشنوا نے کہا کہ ترجمہ دنیا کو ایک نئی شناخت دے رہا ہے،وہ چاہے ادبی میدان ہو یا پھر تکنیکی، ہر ملک میں مترجم کی ضرورت ہوتی ہے۔ ترجمہ امریکہ میں ایک مضمون کے طور پر کافی وسعت و مقبولیت حاصل کررہا ہے۔ وہاں کی یونیورسٹیاں ترجمے کو ایک ابھرتا ہوا موضوع سمجھتی ہیں اور اس پر مسلسل تحقیق جاری ہے۔

ویمنس کالج کی پرنسپل پروفیسر نعیمہ خاتون نے یونیورسٹی آف مشی گن، امریکہ کی ایکسپرٹ محترمہ پریم لتا کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ تعلیم و تدریس کی ترقی میں کالج کے اساتذہ کا اہم کردار ہے۔ حکومت ہند کی وزارت تعلیم کے تعاون سے منعقد کئے جانے والے کورس بعنوان ”عالمی تناظر میں ہندی ترجمہ کی معنویت“ اساتذہ اور طلبہ کے لئے مددگار ہوگا۔ انہوں نے شرکاء سے کہا کہ وہ اس طرح کے کورسز اور ورکشاپ کے انعقاد پر توجہ مرکوز کریں تاکہ اے ایم یو کی رینکنگ مزید بڑھ سکے۔

اے ایم یو کے شعبہ ہندی کے پروفیسر شمبھوناتھ نے کہا کہ ترجمہ سے نہ صرف ایک دوسرے کی زبان کو سمجھا جا سکتا ہے بلکہ ثقافت اور روایت کو بھی اچھی طرح سمجھا جا سکتا ہے۔’شکنتلا‘ ناٹک کی مثال دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ آج دنیا کا ہر ملک شکنتلا کے بارے میں جانتا ہے کیونکہ اس کا کئی زبانوں میں ترجمہ ہوا ہے۔ اگر اس کا ترجمہ نہ ہوتا تو اسے اتنی پذیرائی نہ ملتی۔

فیکلٹی آف آرٹس کے ڈین پروفیسر ایس امتیاز حسنین نے کہا کہ ترجمہ کا میدان دن بدن وسیع تر ہو رہا ہے، یہ صرف ایک زبان تک محدود نہیں بلکہ دنیا کی ہر زبان میں ترجمہ ہو رہا ہے۔ ترجمہ کا مفہوم صرف زبان کو بدلنا نہیں ہوتا بلکہ اس کی ثقافت و روایت اور جذبات کو بھی بدلناہوتا ہے۔ 

 ’گیان‘ کے مقامی کوآرڈینیٹر پروفیسر ایم جے وارثی نے کہا کہ یہ فخر کی بات ہے کہ اے ایم یو میں اتنی بڑی تعداد میں اساتذہ گیان کورسز کے لیے تجاویز بھیج رہے ہیں اور بڑی تعداد میں تجاویز پاس بھی ہوئیں۔ خطبہ استقبالیہ پیش کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ملک میں کئی ہزار یونیورسٹیاں ہیں لیکن صرف 2163 گیان کورسز ہی پاس ہوئے اور 1666 کورسز پورے ہوئے ہیں۔

 کورس کوآرڈنیٹر ڈاکٹر نازش بیگم نے کورس کا تعارف کراتے ہوئے کہا کہ ’عالمی تناظر میں ہندی ترجمہ کی معنویت' عنوان کو منتخب کرنے کا مقصد دوسرے ممالک میں ہندی زبان کو فروغ دینا ہے۔ انہوں نے کہا کہ دنیا کی کئی زبانوں کی مذہبی، سماجی، اقتصادی، سیاسی، ادبی اور سائنسی کتابوں کے ہندی تراجم نے ہندوستانی ترجمہ کی روایت کو تقویت دینے کے ساتھ ساتھ ملک کے تعمیر نو میں بھی اہم کردار ادا کیا ہے۔

  ڈاکٹر شگفتہ نیاز نے سبھی کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ یہ علمی کورس شرکاء کے لیے فائدہ مند ثابت ہو گا اور وہ اس سے کارآمد باتیں سیکھیں گے۔