افغانستان میں سلفی مسلک کو کیوں نشانہ بنایا جا رہا ہے؟

Story by  ایم فریدی | Posted by  Shah Imran Hasan | 2 Years ago
 افغانستان میں سلفی مسلک کو کیوں نشانہ بنایا جا رہا ہے؟
افغانستان میں سلفی مسلک کو کیوں نشانہ بنایا جا رہا ہے؟

 

 

کابل:حمداللہ افغانستان کے مشرقی صوبے ننگرہار کی ایک مسجد کے پیش امام تھے جو اگست میں افغانستان پر طالبان کے قبضے کے بعد مبینہ طور پر ہراساں کیے جانے پر اب پشاور منتقل ہو گئے ہیں۔حمداللہ کا تعلق سلفی اہلِ حدیث مسلک سے ہے جن سے تعلق رکھنے والے افراد زیادہ ترکنڑ، ننگرہار، نورستان اور کابل میں آباد ہیں۔ ماہرین کہتے ہیں کہ داعش خراسان میں اکثریت سلفی مسلک سے تعلق رکھنے والے افغان باشندوں کی ہے جو حنفی مسلک سے تعلق رکھنے والے طالبان کی بالادستی کے مخالف ہیں۔

بعض ماہرین کے مطابق حنفی المسلک طالبان کی صفوں میں بعض ایسے عسکری گروہ بھی موجود ہیں جو سلفیوں کے شدید مخالف ہیں اور ان کو ’واجب القتل‘ سمجھتے ہیں۔ البتہ طالبان کی جانب سے مبینہ طور پر سلفیوں کے خلاف باقاعده کریک ڈاؤن کی وجہ انہیں اپنے سخت ترین حریف داعش کے حمایتی سمجھنا ہے۔ حمداللہ نے الزام لگایا کہ افغانستان پر قبضے کے بعد طالبان کی جانب سے سلفیوں کے خلاف ایک منظم کریک ڈاؤن شروع کیا گیا ہے۔ اُن کے بقول سلفی مکتبِ فکر کے علمائے کرام کے قتل اور گرفتاریوں کے ساتھ ساتھ مسلک سے وابستہ مساجد اور مدارس کو بھی بند یا قبضے میں لیا جا رہا ہے۔

کراچی میں مقیم اسلامی و فقہی امور کے محقق شمس الدین شگری نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ طالبان مکتبِ فکر درحقیقت اہلسنت و الجماعت حنفی دیو بندی ہے اور وہ فقہ میں امام ابو حنیفہ کی تقلید کرتے ہیں۔ لیکن اُن کے بقول سلفی مسلک پر یقین رکھنے والے تقلید کے خلاف ہیں اور کسی امام کی تقلید کو نہ صرف غیر ضروری سمجھتے ہیں بلکہ ان کے نزدیک تقلید حرام ہے۔بنیادی فرق یہی ہے جس کی وجہ سے بہت سارے معاملات میں ان مسالک کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ سلفی، اہلحدیث، غیر مقلدین اور وہابی ایک ہی مسلک ہے۔ افغانستان کے سیکیورٹی امور پر گہری نظر رکھنے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ 15 اگست2021 کو کابل پر قبضے کے بعد سے سلفی مسلک سے وابستہ افراد عدم تحفظ کا شکار ہیں کیونکہ طالبان کے بعض حلقوں میں تقریباً ہر افغان سلفی کو داعش کا حامی سمجھا جاتا ہے۔

طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد داعش ’خراسان‘ کے کے فعال ہونے کی اطلاعات بھی ہیں۔ بعض اطلاعات کے مطابق کابل، قندھار، قندوز اور ننگرہار سمیت ملک کے مختلف حصوں میں اپنے حملوں کے ذریعے داعش طالبان کی حکمرانی کو چیلنج کر رہی ہے۔ طالبان کے 15 اگست2021 کو کابل پر قبضے کے بعد سلفیوں کے خلاف مبینہ کریک ڈاؤن کا آغاز پغمان ضلعے میں سلفی مکتبِ فکر کے مذہبی رہنما شیخ ابو عبیداللہ متوکل کی تشدد زدہ لاش ملنے سے ہوا۔شیخ متوکل پر ماضی میں اشرف غنی کی سابق افغان حکومت کی طرف سے داعش خراسان کی حمایت کے الزامات لگے تھے جس کی وجہ سے انہوں نے طویل عرصہ قید کاٹی مگر طالبان کے کابل پر قبضے کے بعد جیلوں میں قیدیوں کی رہائی کے موقع پر وہ بھی جیل سے نکلنے میں کامیاب ہو گئے تھے۔

حمداللہ اور جماعت سلفیہ کے دیگر رہنماؤں کا دعویٰ ہے کہ 28 اگست کو کابل میں واقع شیخ متوکل کو ان کے گھر سے پانچ مسلح افراد، اہلِ علاقہ اور ان کے گھر والوں کے سامنے یہ کہہ کر لے گئے تھے کہ طالبان کے کچھ رہنما شیخ متوکل سے کسی سلسلے میں ملاقات کرنا چاہتے ہیں۔ البتہ ایک ہفتے بعد ان کی تیزاب سے مسخ شدہ لاش ملی۔ طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر شیخ متوکل کے قتل میں اپنی تنظیم کے ملوث ہونے کی تردید کرتے ہوئے لکھا تھا کہ طالبان انٹیلی جنس اس قتل کے مجرمان کی تلاش میں ہے۔حمداللہ کا کہنا ہے کہ اس واقعے کے بعد طالبان کی جانب سے سلفی مکتبِ فکر کے علمائے کرام، آئمہ کرام اور مساجد اور مدارس کے خلاف باقاعده کریک ڈاؤن شروع ہو گیا ہے جو آج تک جاری ہے۔ ان کے بقول ننگرہار اور کنڑ کے مختلف علاقوں میں ہر چند دن بعد لاشیں پھینک دی جاتی ہیں جن میں سے زیادہ تر افراد کا تعلق سلفی مسلک سے ہوتا ہے۔ ان میں سے کچھ کو گولی مار کر یا پھانسی دے کر جب کہ کچھ کو سر قلم کرکے ہلاک کیا گیا ہوتا ہے۔

اس کے علاوہ بہت سے ہلاک شدگان کی جیبوں سے ہاتھ سے لکھے نوٹ ملتے ہیں جن میں ان افراد پر داعش سے تعلق کا الزام لگایا جاتا ہے۔ ان ماورائے عدالت ہلاکتوں کی ذمہ داری کوئی قبول نہیں کرتا لیکن سلفی مسلک کے رہنما طالبان کو اس کا ذمے دار ٹھیراتے ہیں۔ طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد اور طالبان حکومت کی وزراتِ داخلہ کے ترجمان قاری سعید خوستی نے وائس آف امریکہ کی جانب سے اس حوالے سے بھیجے گئے پیغامات کا جواب نہیں دیا۔البتہ طالبان کے گورنر ننگرہار ملا ندا محمد کے دفتر کے ترجمان نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ طالبان کا آپریشن کسی مسلک کے خلاف نہیں بلکہ داعش کے شدت پسندوں کے خلاف ہے جو ملک میں امن و امان کے مسائل پیدا کر رہے ہیں۔ ترجمان نے بتایا کہ سلفی مسلک کے علمائے کرام طالبان کی امارت اسلامیہ کے ساتھ ہیں اور جو مدارس بند کیے گئے ہیں، ان کے منتظمین کا تعلق داعش کے ساتھ تھا۔

لہٰذا یہ مدارس عنقریب پرامن سلفی علمائے کرام کے حوالے کر دیے جائیں گے۔ افغانستان میں سلفی علمائے کرام کی جانب سے حال ہی میں لکھے گئے عربی زبان میں خط میں مبینہ طور پر طالبان کے کریک ڈاؤن کی تفصیلات بتائی گئی ہیں۔ وائس آف امریکہ کے پاس موجود اس خط میں طالبان حکمرانوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ افغانستان کے سلفی علمائے کرام نے ملک میں امن و امان کے قیام اور کشیدگی کے خاتمے کے حوالے سے متعدد کانفرنسیں بھی منعقد کیں جس میں طالبان کی حمایت کا فیصلہ کیا گیا۔

خط میں لکھا گیا کہ ’’جس طرح طالبان حکمرانوں نے شیعہ، ہندو اور سکھ کمیونٹی کے حقوق کے تحفظ اور مذہبی آزادی کی اجازت دے رکھی ہے، اہلحدیث مسلک کے افراد بھی قوم وملت کا حصہ ہونے کی وجہ سے طالبان سے انہی آزادیوں کا مطالبہ کر رہے ہیں۔‘‘ خط کے متن میں مزید کہا گیا ہے کہ ’’اس کے باجود طالبان کی صفوں میں بعض بریلوی صوفی جو شروع ہی سے اہلحدیث مسلک کی مسلسل مخالفت کر رہے ہیں، مسلک سے وابستہ علمائے کرام اور افراد کے ساتھ دشمنی کر رہے ہیں اور یہ نفرت اتنی ہے جتنی ایک مسلمان کافر سے کرتا ہے۔اس وجہ سے اہلحدیث کمیونٹی ایسی مشکلات سے دوچار ہے جن کا سن کر انسان کے ماتھے پر پسینے آ جاتے ہیں۔‘‘ خط میں الزام لگایا گیا ہے کہ طالبان کی جانب سے ملک کے مختلف حصوں میں متعدد علمائے کرام قتل کیے گئے ہیں جن میں شیخ متوکل کے علاوہ قاری عبیداللہ، شیخ لقمان واخواہ (جلال آباد)ِ، شیخ محمد نبی (جلال آباد) اور شیخ ضیا الحق قابلِ ذکر ہیں۔

اسی طرح جلال آباد کے شیخ بلال عرفان، شیخ قاری مزمل، محمد الله لغمانی، حمیداللہ لغمانی سمیت متعدد جید علمائے کرام کو گرفتار کیا گیا ہے۔ خط میں کہا گیا ہے کہ طالبان کی انٹیلی جنس فورس مسلک کے جن علمائے کرام کی گرفتاری کے لیے چھاپے مار رہی ہے ان میں شیخ احمد شاہ، شیخ سردار ولی، شیخ جاوید اور دلاور منصور قابل ذکر ہیں۔خط کے مطابق ننگرہار، کنڑ اور تخار میں سلفی مسلک میں متعدد مساجد اور مدارس یا تو بند کر دیے گئے ہیں یا ان پر قبضہ کر لیا گیا ہے۔ سیکیورٹی ماہرین کے مطابق طالبان قیادت کی جانب سے سلفیوں کے خلاف مبینہ کریک ڈاؤن شروع کرنے کے کافی اسباب ہے۔ کالعدم شدت پسند تنظیم تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے چند منحرف رہنماؤں نے 2014 میں داعش خراسان کی بنیاد ڈالی تھی۔

بعدازاں ان رہنماؤں کے ننگرہار میں امریکی ڈرون حملوں میں مارے جانے کے بعد داعش خراسان میں پشاور میں قائم سلفی مدارس سے افغان علمائے کرام اور طلبہ کی بڑی تعداد شامل ہوئی۔ نائن الیون سے قبل طالبان کی جانب سے سلفی مدارس پر پابندی کے سبب متعدد مدارس پشاور منتقل ہو گئے تھے۔افغانستان میں طالبان کے معاملات پر گہری نظر رکھنے والے سوئیڈن میں مقیم محقق عبدالسید کے مطابق داعش خراسان کے قیام سے سلفی افغانوں کو طالبان کے مقابلے میں اپنی عسکری قوت بڑھانے کے لیے ایک مضبوط پلیٹ فارم میسر آ گیا۔ مگر پھر داعش خراسان کی جانب سے سخت گیر بیانات اور خون خرابے کے بعد افغان سلفی علمائے کرام نے ان کی حمایت چھوڑ دی۔

کنڑ اور ننگرہار میں داعش خراسان کی شکست اور امریکہ اور طالبان کے امن معاہدے کے بعد مارچ 2020 میں افغانستان سلفی کونسل کے امیر شیخ عبدالعزیز کی قیادت میں ایک وفد نے طالبان کے سربراہ ملا ہیبت اللہ سے ملاقات کی اور اُنہیں اپنی وفاداری کا یقین دلایا۔ عبدالسید کے مطابق طالبان اور سلفی علمائے کرام کے مابین اس ملاقات پر مبنی 17 منٹ کی ویڈیو طالبان کے سوشل میڈیا چینل ’العمارہ‘ سے بھی جاری کی گئی تھی۔ وائس آف امریکہ سے بات چیت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ وفد میں افغانستان میں سلفی اسلام کو فروغ دینے والے عالم دین مفتی جمیل الرحمٰن کے بھتیجے حاجی حیات اللہ کے ساتھ ساتھ پاکستان میں مقیم افغان سلفی عالم دین شیخ امین اللہ پشاوری کے بھائی بھی شامل تھے جنہوں نے طالبان قیادت پر زور دیا تھا کہ وہ سلفی مسلک کو طالبان کی داعش کے خلاف جنگ سے الگ کریں۔

عبدالسید کے مطابق، ’’انہوں نے طالبان قیادت پر واضح کیا کہ افغانستان میں داعش افغان سلفیوں میں ہی سے وجود میں آئی مگر افغان سلفی داعش کی طالبان کی خلاف جنگ کی حمایت نہیں کرتے اور اسے ایک بین الاقوامی سازش قرار دیتے ہیں۔ البته رواں سال اگست میں افغانستان پر قبضے کے بعد طالبان کی جانب سے سلفیوں کے خلاف مبینہ کریک ڈاؤن کا دوبارہ آغاز ہوا۔افغانستان میں طالبان اور داعش کے معاملات سے باخبر صحافیوں، مذہبی علمائے کرام اور سابق قانون نافذ کرنے والے اہلکاروں کا کہنا ہے کہ داعش اس وقت طالبان کی حکومت کو غیر مستحکم کرنے کے لیے نئے جنگجو ڈھونڈ رہی ہے۔ لہذٰا طالبان کے کریک ڈاؤن کی وجہ سے سلفی نوجوانوں کی بڑی تعداد ان کی جانب راغب ہو سکتی ہے۔ ننگرہار میں داعش کے خلاف 2019 میں کریک ڈاؤن میں حصہ لینے والے سابق افغان سیکیورٹی اہلکار عبدالجبار کا کہنا ہے کہ چونکہ داعش کے اکثریتی جنگجوؤں کا تعلق سلفی مسلک سے رہا ہے۔

لہٰذا طالبان کی جانب سے سلفی مکتبِ فکر پر مذہبی پابندیوں کی وجہ سے اس طبقے کے نوجوان داعش کی طرف پھر راغب ہو سکتے ہیں۔ داعش کے عربی زبان میں شائع ہونے والے جریدے ’النبا‘ سے لیے گئے اعداد و شمار کے مطابق 13 اگست سے لے کر تین دسمبر تک داعش افغانستان اور پاکستان میں کل 102 حملے کرنے کا دعویٰ کر چکی ہے جن میں 14 حملے پاکستان جب کہ دیگر افغانستان میں کیے گئے ہیں۔ عبدالجبار نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ’’طالبان کی سلفی مسلک کے خلاف کارروائیوں سے ملک میں مسلکی اور فرقہ وارانہ قتل و غارت کا آغاز ہو سکتا ہے۔

پاکستان کے بڑے شہروں کراچی، لاہور، اسلام آباد اور پشاور میں بھی پاکستانی سلفی جماعتوں نے مشترکہ اجلاس منعقد کیے جس میں افغانستان میں جاری سلفی مسلک کے افراد کے خلاف طالبان کے مبینہ کریک ڈاؤن پر تشویش اظہار کیا گیا۔ شوریٰ علما اہل حدیث خیبرپختونخوا نے ستمبر کے اواخر میں پشاور میں ایک پریس کانفرنس میں شیخ متوکل کے قتل کی مذمت کرتے ہوئے طالبان قیادت سے افغان حکومت میں اہل حدیث کو نمائندگی دینے، تمام بند مدارس کے کھولنے اور اہل حدیث علما کے ساتھ تعاون کا مطالبہ کیا تھا۔تنظیم کے رہنما مولانا فضل الرحمٰن مدنی نے بتایا کہ پاکستان کی اہلحدیث تنظیمیں طالبان قیادت سے افغانستان کے اہل حدیث کے علما، مدارس و مساجد اور عقیدت مندوں کو تحفظ فراہم کرنے کا مطالبہ کرتی ہیں۔