جانئے : کیا ہے کنگ چارلس کا ’’اسلام ‘‘ سے رشتہ

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 14-09-2022
جانئے : کیا ہے کنگ چارلس کا ’’اسلام ‘‘ سے رشتہ
جانئے : کیا ہے کنگ چارلس کا ’’اسلام ‘‘ سے رشتہ

 

 

منصور الدین فریدی : آواز دی وائس 

  چارلس، پہلے پرنس اور اب کنگ  کی حیثیت  سے دنیا کے سب سے بڑے اسلامک اسٹڈیز سینٹر کے’سرپرست‘  ہیں ۔

جی ہاں ! آپ حیران ہونگے مگر یہی سچ ہے۔ پرنس سے کنگ بنے چارلس کا اسلامی دنیا میں ایک تعارف یہ بھی ہے۔

 وہ آکسفورڈ سینٹر فار اسلامک اسٹڈیز کے ’’سرپرست اعلی ‘‘ ہیں۔ یہ سرپرستی صرف کاغذی نہیں بلکہ عملی رہی ہے۔

 دراصل اسلامی سینٹر کے قیام کا خیال 32 سال قبل دنیا کی سب سے مشہور آکسفورڈ یونیورسٹی کے مسلم اسکالرز کے ایک گروپ نے پیش کیا تھا۔ان کی تجویز کو مسلم دنیا کے دو عظیم رہنماؤں - سعودی عرب کے مرحوم شاہ فہد بن عبدالعزیز آل سعود اور کویت کے مرحوم امیر شیخ جابر الاحمد الجابر الصباح نے منظور کیا تھا۔

آٓکسفورڈ سنٹر فار اسلامک ا سٹڈیز کی بنیاد 1985 میں رکھی گئی تھی۔ جبکہ 2012 میں ادارے کو  ملکہ الزبتھ دوم نے ’رائل چارٹر‘ دیا تھا۔

اس سینٹر کے پلیٹ فارم سے چارلس کی  کچھ تقریروں نے دنیا کو چونکا دیا تھا،جن میں ان کے خیالات نے عالم اسلام میں توجہ کا مرکز بنا دیا۔اسلام اور مغرب کے موضوع پر ان کے خطاب ایک تاریخی حیثیت رکھتا ہے۔ جس میں انہوں نے اسلام کے تعلق سے مغرب میں غلط فہمیوں کو دور کرنے پر زور دیا تھا۔ اس کے بعد سینٹر کی سلور جبلی کے موقع پر  ’اسلام اور ماحولیات ‘ کے موضوع پر ایک گھنٹہ طویل تقریر کی تھی جس میں اسلام کے روحانی اصولوں پر عمل کرکے ماحولیاتی تباہی کو روکنے کی بات کی تھی۔

 آکسفورڈ کے اس اسلامی ادارے کے ساتھ چارلس کا رشتہ 32سال پرانا ہے اور اس دوران انہوں نے ہر قدم پر ادارے کا ساتھ دیا۔ یہی نہیں سینٹر سے انوکھے رشتے کے دوران جہاں چارلس نے عربی سیکھی وہیں انہوں نے تصوف کا مطالعہ کیا ۔وہ مولانا جلال الدین رومی کو پڑھتے ہیں اور تصوف کے ضبط و  برداشت کی تعلیم کو پسند کرتے ہیں

awazurdu

 ایک یادگار فوٹو:  مولانا سید ابوالحسن علی ندوی اور پروفیسر خلیق احمد نظامی آکسفورڈ یونیورسٹی میں 

ہندوستان اور اے ایم یو کا کنکشن

   آپ کو بتا دیں کہ آکسفورڈ سینٹر فار اسلامک اسٹڈیز کے قیام میں جہاں ہندوستان کا بہت بڑا ہاتھ تھا تو وہیں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کا بہت اہم کردار تھا۔

آکسفورڈ  سینٹر فار اسلامک اسٹڈیز کی بنیاد رکھنے والوں میں ممتاز مفکر اسلام مولانا سید ابوالحسن علی ندوی شامل تھے،وہ اس کے بورڈ آف ڈائریکٹر کے سربراہ رہے۔ جبکہ اس کے فاونڈر ڈائریکٹر  پروفیسر فرحان احمد نظامی ہیں۔ جو کہ  ممتاز محقق ، مصنف اور شام کے سابق سفیر پروفیسر خلیق احمد نظامی کے فرزند ہیں اور خود بھی ایک معروف استاد اور دانشور ہیں۔جو کہ فاونڈر ٹرسٹی بھی تھے۔اب ان کے پوتے معین احمد نظامی بھی سینٹر کا حصہ ہیں ۔

awazurdu

بائیں سے : بانی ٹرسٹی پروفیسر خلیق احمد نظامی ،بانی ڈائریکٹر فرحان احمد نظامی اور پروفیسر معین احمد نظامی   

 آپ کو بتا دیں کہ ڈاکٹر فرحان احمد نظامی نے وڈھم کالج، آکسفورڈ سے تعلیم حاصل کی تھی۔ 1983 میں، وہ روتھمین کے فیلو ان مسلم ہسٹری منتخب ہوئے ۔ بعد ازاں سینٹ کراس کالج، آکسفورڈ میں اسلامک اسٹڈیز کے فیلو منتخب ہوئے۔ 1985 سے وہ آکسفورڈ سنٹر فار اسلامک اسٹڈیز کے بانی ڈائریکٹر کے طور پر خدمات انجام دے رہے ہیں۔ 1997 میں وہ میگڈلین کالج میں پرنس آف ویلز فیلو اور سینٹ کراس کالج میں ایمریٹس فیلو منتخب ہوئے۔ وہ جرنل آف اسلامک اسٹڈیز، آکسفورڈ یونیورسٹی پریس (1990-) کے ایڈیٹر اور میکرز آف اسلامک سولائزیشن سیریز، آکسفورڈ یونیورسٹی پریس (2004-) کے سیریز ایڈیٹر بھی ہیں۔

’اسلام اور مغرب‘

اسلام اور مغرب پر چارلس نے اپنے پہلے خطاب میں ان دو تہذیبوں کے ٹکراو اور دیگر پہلووں پر بہت گہرائی کے ساتھ روشنی ڈالی تھی جو کہ 27 اکتوبر 1993 میں دی تھی۔ دراصل یہ مذہب پر ایسی تقریر نہیں تھی جس کی زیادہ تر لوگ سیاست دانوں اور شاہی خاندانوں سے توقع کرتے ہیں۔

چارلس نے کہا تھا کہ اسلام "ہمارے ماضی اور حال کا حصہ ہے، اس نے جدید یورپ کی تشکیل میں انسانی کوششوں کے تمام شعبوں میں مدد کی ہے۔ یہ ہماری اپنی وراثت کا حصہ ہے، کوئی الگ چیز نہیں۔"

اگر مغرب میں اسلام کی نوعیت کے بارے میں بہت زیادہ غلط فہمی پائی جاتی ہے۔

 اس کا سبب اسلامی دنیا پر ہماری اپنی ثقافت اور تہذیب کے قرض کے بارے میں بھی بہت زیادہ لاعلمی ہے۔

  یہ ایک ناکامی ہے جو میرے خیال میں تاریخ کی دین ہے جو ہمیں ورثے میں ملی ہے۔

انہوں نے کہا تھا کہ  خواتین کو 1,400 سال قبل اسلام میں جائیداد اور وراثت کا حق دیا گیا تھا، قرون وسطی کے اسلام کی "قابل ذکر رواداری" کو خراج تحسین پیش کیا اور مغرب کی اس قرض کے بارے میں لاعلمی کا اظہار کیا جو ہماری اپنی ثقافت اور تہذیب اسلامی دنیا پر واجب الادا ہے۔

چارلس نے کہا تھا کہ  ۔۔۔۔ میرا ماننا ہے کہ اسلام آج ہمیں دنیا کو سمجھنے اور زندگی گزارنے کا ایک طریقہ سکھا سکتا ہے جسے کھونے کی وجہ سے خود عیسائیت سب سے زیادہ غریب ہے۔

  اسلام کے قلب میں کائنات کے اٹوٹ نظریے کا تحفظ ہے۔ اسلام - بدھ مت اور ہندو مت کی طرح - انسان اور فطرت، مذہب اور سائنس، دماغ اور مادے کو الگ کرنے سے انکار کرتا ہے۔ اس نے اپنے اور ہمارے ارد گرد دنیا کے بارے میں ایک مابعد الطبیعاتی اور متحد نظریہ محفوظ رکھا ہے۔

چارلس نے کہا تھا کہ  ۔۔۔ میں دل سے یقین کرتا ہوں کہ ان دونوں دنیاؤں کے درمیان روابط آج پہلے سے کہیں زیادہ اہمیت رکھتے ہیں، کیونکہ اسلامی اور مغربی دنیا کے درمیان غلط فہمی خطرناک حد تک زیادہ ہے اور اس وجہ سے کہ ہماری بڑھتی ہوئی ایک دوسرے پر منحصر دنیا میں دونوں کو ایک ساتھ رہنے اور کام کرنے کی ضرورت ہے۔

ماحولیاتی تحفظ کے لیے اسلامی روحانی اصول

آکسفورڈ سینٹر فار اسلامک اسٹڈیز کی سلور جبلی کے موقع پر 9 جون 2010 کو  ایک خصوصی پروگرام میں چارلس نے ماحولیات کے موضوع  پر ایک گھنٹہ کے طویل خطاب میں اپنے تمام تر نکات اسلام پر مرکوز رکھے۔

چارلس نے کہا تھا کہ اس کی بنیادی تعلیمات اور تفسیروں کے بارے میں جو کچھ میں جانتا ہوں، اس سے ہمیں جو اہم اصول ذہن میں رکھنا چاہیے وہ یہ ہے کہ فطرت کی کثرت کی حدود ہیں۔ یہ صوابدیدی حدود نہیں ہیں، یہ خدا کی طرف سے عائد کردہ حدود ہیں اور اس طرح، اگر قرآن کے بارے میں میری سمجھ درست ہے، تو مسلمانوں کو حکم ہے کہ ان سے تجاوز نہ کریں۔

پرنس آف ویلز نے سینٹر پر زور دیا کہ وہ 'اسلام اور ماحولیات' پر ایک عالمی فورم قائم کرے، تاکہ روایتی مذہبی اصولوں پر مبنی عملی نقطہ نظر کو فروغ دینے میں مدد ملے، جو مناسب ماحولیاتی پالیسی پر رہنمائی فراہم کرے۔

اسلام اور ماحولیات پر چارلس کی تقریر بہت مشہور ہوئی 

انہوں نے صدیوں قبل اسلامی شہری منصوبہ بندی کی مثالوں کا ذکر کیا، جس میں 1,200 سال پہلے اسپین میں آبپاشی کے نظام بھی شامل تھے، مثال کے طور پر کہ کس طرح "پیغمبرانہ تعلیمات" نے "قلیل مدتی معاشیات" کے حق میں طویل مدت وسائل کی منصوبہ بندی کو برقرار رکھا۔

درحقیقت، چارلس  کے گلوسٹر شائر کے گھر میں باغ اسلامی روایات اور قرآن میں مذکور پودوں سے متاثر ہے۔

چارلس نے کہا تھا کہ ماحولیات کے تحفظ کے لئے پوری دنیا کو فراخ دلی کے ساتھ اسلام کے روحانی اصولوں پر چلنا چاہیے تبھی ماحولیات کا تحفظ ہو سکتا ہے۔

  اپنی تقریر میں انہوں نے یہ بھی کہا تھا  کہ اسلام صرف مسلمانوں کا ہی مذہب نہیں ہے بلکہ اس کے اندر بنی نوع انسان کے لئے علم و دانش اور روحانی خزانوں کا ایک انبار موجود ہے، جو دنیا کے لئے ایک بیش قیمت عطیہ ہیں ۔

 کنگ چارلس اور تصوف

دلچسپ بات یہ ہے کہ نئے کنگ چارلس کو تصوف میں گہری دلچسپی ہے۔ پچھلے دنوں ایک محفل میں جب کنگچارلس سے پوچھا گیا کہ آپ کی تصوف میں دلچسپی کس حد تک ہے؟ تو ان کا جواب تھا کہ وہ مولانا جلال الدین رومی کے بہت بڑے مداح ہیں ۔ یہی نہیں ان کے مزار پر جاکر انہوں نے تصوف اور اسلام کے متعلق لیکچر دیا تھا۔ ان کا ماننا ہے کہ صوفیاء کا اسلامی تعلیمات کی اشاعت میں اہم کردار ہے، یورپ میں تو صوفی ازم کے بہت زیادہ اثرات ہیں کیونکہ وہ برداشت اور تحمل کا درس دیتے ہیں۔

سینٹر  کے مقاصد

اس عظیم ادارے کے قیام کا مقصد اسلامی ثقافت اور تہذیب کے تمام پہلوؤں اور عصری مسلم معاشروں کے کثیر الشعبہ نقطہ نظر سے مطالعہ ہے۔ جس کا ایک بورڈ آف ٹرسٹیز نگراں ہے۔جس میں دنیا بھر کے ممتاز اسکالرز اور لیڈرز شامل ہیں۔ آکسفورڈ یونیورسٹی کے نمائندے جو کونسل کے ذریعہ نامزد ہوتے ہیں۔

  مرکز کے بہت سے فیلوز یونیورسٹی کے مختلف شعبوں، فیکلٹیز اور کالجوں میں سرگرم ہیں۔ سنٹر کے اسکالرشپس اور وزٹنگ فیلوشپس پروگراموں کے ذریعے کئی طلباء اور سینئر ماہرین تعلیم گزشتہ برسوں میں آکسفورڈ آئے ہیں۔

مرکز پورے تعلیمی سال میں لیکچرز، سیمینارز، ورکشاپس اور کانفرنسوں، نمائشوں اور دیگر تعلیمی تقریبات کا اہتمام کرتا ہے۔

awazurdu

اس سلسلے کے لیکچررز میں سربراہان مملکت و حکومت، مسلم دنیا اور اس سے باہر کے بین الاقوامی شہرت یافتہ علماء، اقوام متحدہ، او آئی سی، عرب لیگ، یونیسکو اور دولت مشترکہ سمیت بین الاقوامی تنظیموں کے سیکرٹری جنرلز شامل  ہوتے رہے ہیں۔

عمارت فن تعمیر کا ایک خوبصورت نمونہ

 جب ۱۹۸۴ میں آکسفورڈ سینٹر فار اسلامک اسٹڈیز وجود میں آیا تھا تو سینٹ کراس روڈ پر لکڑی کی چند کمروں میں محدود تھا ، اس کے بعد یہ 1990 میں جارج اسٹریٹ میں منتقل ہوگیا تھا ۔ آخر کار یہ 2016/17 تعلیمی سال کے دوران آکسفورڈ کے وسط میں تعمیر ہوئی عالیشان عمارت میں منتقل ہوگیا ،جسے اسلامی فن تعمیر کا شاہکار قرار دیا گیا ہے۔

awazurdu

آکسفورڈ سینٹر فار اسلامک اسٹڈیز  کی نئی عمارت 

اس کا فن تعمیر روایتی آکسفورڈ کالجوں کی خصوصیات کو اسلام کے کلاسیکی دور کی شکلوں اور طرزوں کے ساتھ ملا تا ہے۔کمپلیکس میں ایک مسجد بھی شامل ہے جو عوام کے لیے روزانہ کی نماز کے لیے کھلی ہے۔

یاد کریں چارلس کے الفاظ

 پرنس سے کنگ بنے چارلس  نے بہت پہلے اس سلسلے میں برطانیہ کے ایک طبقہ کی غلط فہمی کو دور کردیا تھا ۔ جب انہوں نے چند سال قبل ایک تقریر میں کہا تھا کہ میں برطانیہ  کا بادشاہ بنتے ہی ایک مذہب کے بجائے تمام مذاہب کا محافظ بنوں گا،

تو کیا آپ اپنے روایتی ٹائٹل (Defender of the faith)کے بجائے  (Defender of the faiths) کے حوالے سے پہچانے جانا پسند کریں گے۔

 پرنس چارلس نے وضاحت کرتے ہوئے کہا نہیں۔

 یعنی مخصوص مذہب(The faith) کے بجائے صرف عقیدہ (Faith) کا محافظ بننا پسند کروں گا۔

جس کا جو بھی مذہب ہوگا ریاست کی طرف سے اس کو تحفظ حاصل ہوگا۔ یعنی شہزادہ چارلس کا مطلب یہ تھا کہ وہ صرف چرچ آف انگلینڈ کا ہی محافظ بننے کے بجائے ہر مذہب کے قانونی طور پر محافظ بننے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔