واجد علی شاہ کے وارث کولکتہ میں لکھنو کی تہذیب کے رکھوالے

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 25-11-2021
واجد علی شاہ کے وارث  کولکتہ میں لکھنو کی تہذیب کے   رکھوالے
واجد علی شاہ کے وارث کولکتہ میں لکھنو کی تہذیب کے رکھوالے

 

 

آواز دی وائس / کولکاتہ سے نمائندہ خصوصی 

آج سےتقریباً 165سال قبل اودھ کےآخری بادشاہ واجد علی شاہ نےاپنی سلطنت کو برطانوی ایسٹ انڈیا کمپنی کے ساتھ الحاق کر کے کولکاتہ کو اپنی جائے پناہ بنا لی تھی۔ مغربی بنگال کےدارالحکومت کولکاتہ کا مٹیابرج اس وقت برطانوی ہندوستان میں ایک بہت چھوٹا سا مقام تھا، جوآگے چل کر 'منی لکھنؤ' کی شکل اختیار کرنے والا تھا۔

منشی پریم چند کےناول پرمبنی1977کی ستیہ جیت رے کی امجد خان کی اداکاری والی فلم 'شطرنج کے کھلاڑی' کو دیکھ کرنئی نسلوں نے بادشاہ کی زندگی کو سمجھنے کی کوشش کی تھی۔

حالاںکہ اودھی شاہی خاندان نے خوشیوں  کے شہر کولکاتہ میں بہت کم اثرات ڈالے، تاہم اب ان کی وراثت کولکاتہ کی ثقافت کا حصہ بن چکی ہیں۔ شہنشاہ مرزا آخری بادشاہ کے پڑپوتے ہیں، وہ شاہی خاندان کے ان چند لوگوں میں سے ایک ہیں، جنہوں نے شہر نہیں چھوڑا اوراپنی بقیہ زندگی اپنےآبائی مکان میں ہی گزارتے رہے۔وہ کولکاتہ کے ادبی حلقوں کی ایک معروف شخصیت ہیں۔ انہوں نے شہر کے بہترین تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کی اور مرکزی حکومت میں سینئر افسر کے عہدے پر کام کیا۔

مرزا نےآواز دی وائس کو بتایا کہ ان کا سلسلسہ نسب شہزادہ مرزا محمد بابر سے براہ راست ملتا ہے، جو واجد علی شاہ کے بیٹوں میں سے ایک تھے۔ انہوں نے بتایا کہ وہ واجد شاہ کے ایسے تنہا بیٹے تھے، جس کے والدین شاہی نسب سے تعلق رکھتے تھے۔

انہوں نے بتایا کہ شہزادہ بابرایک تربیت یافتہ معالج تھےجو ضرورت مند والدین کا مفت علاج کرتے تھے۔ ان کے چار بیٹے تھے۔ ان کا سب سے چھوٹا بیٹا شہزادہ غضنفر مرزا تھا جس نے کولکاتہ میں رہنے کا فیصلہ کیا کیونکہ انہیں لگتا تھا کہ پاکستان کے مقابلے میں ہندوستان میں مسلمانوں کا مستقبل بہتر ہے۔

انہوں نے بتایا کہ شہزادہ غضنفر کے بڑے بیٹے صاحبزادہ واصف مرزا میرے والد ہیں۔ وہ خاندان کے سرپرست اور اودھ رائل فیملی ایسوسی ایشن(Awadh Royal Family Association) کے صدر ہیں۔ یہ تنظیم توسیع شدہ خاندان کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے قائم کیا گیا تھا۔

فی الوقت کولکاتہ میں اودھی شاہی خاندان کے 20 سے زائدخاندان موجود ہیں جن کی نمائندگی مرزا کرتے ہیں۔ جب کہ ان کے والد صاحبزادہ واصف مرزاعمر رسیدہ ہوچکے ہیں۔ تاہم انہیں اب بھی پنشن ملتی ہے، جو کہ مالیاتی تشخیص کے لحاظ سے اب یہ بس علامت بن کر رہ گئی ہے۔

awazurdu

شہنشاہ مرزا آخری بادشاہ کے پڑپوتے 


آزادی کے بعد بھی بڑی تعداد میں بااثر مسلم خاندانوں نے علاقے سے نقل مکانی جاری رکھی تھی مگر نواب واجد علی شاہ سے تعلق رکھنے والی اس نسل نے نقل مکانی کو ترجی نہ دی اور شاہی محل میں ہی رہنے کا فیصلہ کیا۔

شہنشاہ مرزا تین بہن بھائی ہیں، دونوں بہنیں ٹیچر ہیں۔ ان کی اہلیہ مونٹیسوری اسکول(Montessori school) چلاتی ہیں۔ جب کہ بڑی بیٹی ایک چائے کی بروکنگ فرم(broking firm) میں کام کر رہی ہے، وہیں چھوٹی بیٹی کی تعلیم جاری ہے۔ وہ ٹینس کو کیریئر کے طور پر اپنانے کی خواہشمند ہیں۔

مرزا کہتے ہیں کہ میرے والد نے ہمیں اپنی بہترین صلاحیتوں کے مطابق تعلیم دلائی کیوں کہ اور ہم نے بھی محسوس کیا کہ تعلیم ہی واحد ذریعہ ہے جو زندگی میں آگے بڑھنے میں ہماری مدد کر سکتا ہے۔

انہوں نے یہ بھی کہا کہ وہ ڈاکٹر بننا چاہتے تھے،مگر یہ ممکن نہ ہوسکا۔

 awaz

شہنشاہ مرزا اہل خاندان کے ساتھ


 جب میں نے ان سے یہ سوال کیا کہ کیا پہلے آپ، پہلے آپ والی روایت ابھی تک برقرار ہے تو انہوں نے اس کے جواب میں مسکرا دیا۔ پھر انہوں نے کہا کہ بہت سے لوگ اس کا مذاق اڑاتے ہیں۔ تاہم اب بھی روایتی اقدار کو ہم فخر کے ساتھ برقرار رکھے ہوئے ہیں۔

اس شاہی خاندان میں اب بھی اردو کے روایتی الفاظ استعمال کئے جاتے ہیں، مثلاً حمام اور تشتری وغیرہ اور انگریزی کے الفاظ استعمال نہیں کئے جاتے ہیں۔ بیٹیوں کو بھی آپ سے مخاطب کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ فارسی زبان کی بھی بنیادی تعلیم کا رواج اس خاندان میں آج بھی موجود ہے۔

مرزا نے بتایا کہ وہ اب بھی روایتی آداب کی پیروی کرنے کے خواہش مند ہیں،بلکہ جب ہم کسی مہمان کو مدعو کرتے ہیں توان کی ہرطرح سے خاطر تواضع کرنا ضروری سمجھتے ہیں۔ ہم کھانے میں مہمان کی پسند کو ترجیح دیتے ہیں اورمہمان کو مرکزی کرسی پر کھانے کے دوران بٹھاتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اب دسترخوان کی جگہ پراگرچہ کرسی ٹیبل نے لے لی ہے، مگر ان کے یہاں خاص مواقع پر فرش پر بیٹھنے کے انتظامات کے ساتھ کھانے کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ انہوں نے بتایا کہ ان کے یہاں اب بھی مہمانوں کے اعزاز میں مستطیل کپڑے( rectangular cloth ) سائز کے کپڑے پرنٹ کر تیار کئے جاتے ہیں۔

بہت سے لوگ واجد علی شاہ کو کولکاتہ بریانی کے ساتھ بھی جوڑ کر دیکھتے ہیں،خیال رہے کہ کولکاتہ بریانی میں آلو ایک اہم جزو ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ان تبصروں سے مجھے بہت تکلیف ہوتی ہے اور بعض اوقات جب میں ایسے تبصرے سنتا ہوں تو بہت غصہ آتا ہے۔

انہوں نےدعویٰ کیا کہ بادشاہ اوران کےخاندان کا تعاون بہت زیادہ رہا ہے۔ مختلف شعبوں میں آپ اس کے اثرات دیکھ سکتے ہیں۔ خیال رہے کہ واجد علی شاہ 1856 میں کولکاتہ آئے، یہ وہی زمانہ ہےجب کہ ان کی حکومت ختم ہوگئی تھی۔

اس وقت شہر میں آباد کاری فورٹ ولیم کی جانب سے کی گئی تھی۔ کہا جاتا ہے کہ واجد علی شاہ کےوفد کے ساتھ تقریباً 500 افراد آئے تھے۔ ان میں شاہی طبیب، خانساماں ، شاعر، مولوی اور وہ تمام لوگ جن کی روزمرہ کی زندگی میں ضرورت ہوتی ہے۔

واجد علی شاہ کے قیام سے کثیر الثقافتی شہر میں اودھی رسم و رواج کی حوصلہ افزائی ہوئی، اس کے علاوہ ایک بہتر اردو بولی کا بھی رواج چل پڑا۔ ایک بار جب وہ اس علاقے میں آباد ہوے تو وہاں کے زیادہ تر لوگوں نے بادشاہ کی پیروی کی۔

واجد علی شاہ نے مشاعرہ، غزل اور دیگر ادبی کاموں کی سرپرستی کرنی شروعی کی۔ اور پھر ایسا ہوا کہ اودھی لباس یعنی شیروانی، اچکن، چوری دار، کرتا پائجامہ، شرارا، غرارا، شہر کے فیشن کا حصہ بن گئے۔

واضح رہےکہ مٹیا برج(Metiaburz)فی الوقت ایشیا کےغیر برانڈڈ ملبوسات تیار کرنےکا سب سے بڑا علاقہ سمجھا جاتا ہے۔ اب پتنگ بازی کو شہر کے بھدرلوک (مہذب) اور زمینداروں نے تفریحی سرگرمی کے طور پر قبول کر لیا۔

اودھی کھانا یعنی کولکاتہ بریانی، پراٹھا، شیمل، روغنی روٹی، شاہی ٹوکرا، شامی کباب، قورما وغیرہ وقت بیتنے کے ساتھ ساتھ شہریوں کی خوراک میں شامل ہو گیا۔

بہت سےدوسرے شہروں کی طرح کولکاتہ بھی ترقی کر رہا ہے اور اب اودھ کےآخری بادشاہ کی کہانی زیادہ تر لوگوں کے لیے ایک پریوں کی سی کہانی کی مانند دلچسپ ہے۔

پرامن بقائے باہمی، محرم الحرام کا مشاہدہ، مالی استطاعت کے مطابق فراخدلی کا مظاہرہ، یہ کچھ خصوصیات ہیں جوان میں باقی رہ گئی ہیں۔ اگرچہ خاندانی سلسلہ و شجرہ موجود ہے، مگر اب خاندان کے لوگ کبھی کبھی ہی مل پاتے ہیں۔

یہ کہانی شاہی خاندان کی میراث اور شناخت کو برقرار رکھنے کے بارے میں ہے۔

مرزا کو اکثر اودھ شاہی خاندان کی نمائندگی کے لیے مدعو کیا جاتا ہے۔ درگا پوجا شہر کا سب سے بڑا تہوار ہے اور مرزا شہر کے شائستہ افراد کے طور پر، اس موقع پروہ دوستوں سے ملنے میں اتنا ہی خوش ہوتے ہیں جتنا کہ وہ عید، دیوالی اور کرسمس پر ہوتے ہیں۔