قرآن فہمی ہندوستان میں: علی گڑھ کے خصوصی حوالے سے

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | 2 Years ago
ددفبگگبب
ددفبگگبب

 

 

awazurdu

 پروفیسر اخترالواسع

ہندوستان اور قرآن کا ایک دوسرے سے تعلق اتنا ہی پرانا ہے جتنا مسلمانوں کا ہندوستان سے۔ قرآن ان کتب سماوی میں سے ہے جس کا دنیا میں سب سے زیادہ مطالعہ کیا جاتا ہے اور دنیاکی بیشتر زبانوں میں اس کے اب تک نہ جانے کتنے تراجم ہو چکے ہیں۔ خود ہندوستان کی شیڈول8- میں تسلیم کی گئیں ساری زبانوں میں قرآن کے ایک نہیں کئی کئی ترجمے ہو چکے ہیں۔

ظاہر ہے کہ سب سے زیادہ تراجم ہندی ہی میں ہوئے ہیں اور اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اب خود مسلمانوں کی بھی ایک بڑی تعداد ہندی میں خواندگی کی شرح اور اس کا تناسب غیرمعمولی حد تک زیادہ رکھتی ہے اور غیر مسلم بھی قرآن کے مطالیب و معانی کو سمجھنا چاہتے ہیں اور ہندی زبان اس میں ان کی سب سے زیادہ معاونت کرتی ہے۔

ہندوستان کو ہمیشہ اس بات پر فخر ہونا چاہیے کہ قرآن فہمی کو عام کرنے کے لئے اٹھارہویں صدی میں قرآن کا سب سے پہلا فارسی ترجمہ دہلی میں بیٹھ کر شاہ ولی اللہ نے کیا تھا۔ جس پر ان کی مخالفت بھی ہوئی لیکن انہوں نے قرآن کے پیغام کو عام کرنے کے لئے ہر طرح کے تعصب، تنگ نظری اور انتہا یہ کہ تشدد کا بھی مقابلہ کیا اور بعد ازاں ان کے بیٹے شاہ عبدالقادر نے موضح القرآن کے نام سے قرآن کی اجمالی تفسیر بھی لکھی اور ایک بیٹے شاہ رفیع الدین نے قرآن کا اردو میں پہلا ترجمہ بھی کیا۔

یہاں ایک بات کا ذکر بے محل نہ ہوگا کہ عہد اکبری میں فیضی نے قرآن شریف کا فارسی میں سواطع الالہام کے نام سے ایک ایسا ترجمہ کیا جس میں ایسے الفاظ کا استعمال کیا گیا جن میں نقطے ہی نہ تھے۔ اس سے فیضی کی فارسی پر جو لسانی دسترس تھی اس کا اندازہ تو ہوتا ہی ہے ساتھ میں قرآن مجید پر اس کی گہری نظر ہونے کا بھی پتا چلتا ہے۔

شاہ ولی اللہ کے خاندان کی قرآنی خدمات کے بعد قرآن کے علم و فضل کی وہ بہار دیکھنے میں آئی کہ ہر دور میں قرآن کے تراجم اور تفاسیر کی ایک کہکشاں آباد ہوتی چلی گئی۔ یہاں یہ بھی واضح رہے کہ قرآن کریم کے جو انگریزی تراجم ساری دنیا میں مستند تسلیم کئے جاتے ہیں ان میں پِکتھال، عبداللہ یوسف علی اور مولانا عبدالماجد دریا آبادی کے تراجم اپنی ثقاہت کی بنا پر ساری دنیا میں مشہور ہیں۔

پِکتھال گرچہ انگریز تھے لیکن ان کا انگریزی ترجمہئ قرآن ہندوستانی شمار ہوتا ہے۔ 18ویں، 19ویں اور 20ویں صدی میں قرآن کریم کے ترجمے، تفسیر اور تدریس و تحقیق اور حفظ و قرأت کا ہمیشہ کی طرح ہندوستان میں بھی جو غلغلہ رہا وہ کچھ عجیب نہ تھا۔ اس لئے کہ پیدائش سے وفات تک کسی مسلمان کی زندگی کا کوئی گوشہ چاہے وہ عبادات کا ہو یا معاملات کا، قرآن سے اچھوتا نہیں رہتا ہے۔اور دینی مدارس تو قرآن فہمی کی ترویج اشاعت میں جو رول انجام دیتے ہیں وہ تو ہیں ہی لیکن جدید اور سیکولر تعلیم کا جو ادارہ 24مئی 1857میں علی گڑھ میں قائم ہوا، 1877ایم اے او کالج کہلایا اور دسمبر 1902میں جسے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی حیثیت سے ایک مرکزی جامعہ کا درجہ دیا گیا اس میں بھی قرآن کی تدریس و تحقیق شروع سے دلچسپی کا موضوع رہی۔ سرسید کی تفسیر ہو یا ڈپٹی نذیر احمد کا ترجمہ یا پھر چراغ علی، الطاف حسین حالیؔاور ان کے ساتھیوں کا قرآن سے شغف کسی سے چھپا ہوا نہیں ہے۔ 

علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے ادارہئ علوم اسلامیہ اور دینیات کی فیکلٹی کے نے اس سلسلے میں گراں قدر کام کیے ہیں-۔لیکن 21ویں صدی میں مشہور مؤرخ، تعلیمی منتظم اور سفارتکار پروفیسر خلیق احمد نظامی کے خانوادے کے تعاون سے علومِ قرآنی کے باب میں علی گڑھ میں ایک نئی تاریخ رقم کی گئی، اور وہاں پر خلیق احمد نظامی مرکز علوم القرآن قائم ہوا جس کے پہلے ڈائرکٹر ان کے بڑے صاحبزادے پروفیسر احتشام احمد نظامی تھے اور جہاں 2012سے قرآن سے متعلق تدریس، تعلیم اور تحقیق و ترتیب کا آغاز ہوا۔

موجودہ شیخ الجامعہ پروفیسر طارق منصور کی سرپرستی میں اس وقت اس مرکز میں قرآنک عربی، قرآنک اسٹڈیز اور تجوید و قرأت میں ڈپلومہ کورسیز کے علاوہ بی اے آنرس قرآنک اسٹڈیز کی کلاسیں بھی جاری رہی ہیں اور رواں تعلیمی سال سے ایم اے قرآنک اسٹڈیز کا آغاز ہونے جا رہا ہے۔ یہاں یہ بات انتہائی خوش کن ہے کہ رواں تعلیمی سال میں عبداللہ گرلس کالج کی 62طالبات نے قرآنک اسٹڈیز کا انتخاب اختیاری مضمون کے طور پر کیا ہے۔

خلیق احمد نظامی مرکزی علوم قرآن کے موجود ہ ڈائرکٹر پروفیسر عبدالرحیم قدوائی اگرچہ بنیادی طور پر انگریزی کے پروفیسر ہیں لیکن اپنی قرآن فہمی، انگریزی کے قرآنی تراجم و تفاسیر پر استناد کا درجہ رکھتے ہیں۔ وہ مشہور مفکر، انشا پرداز، ادیب، صحافی اور علوم قرآنی کے پارکھ مشہور مترجم و مفسر مولانا عبدالماجد دریاآبادی کے نواسے بھی ہیں، اور بلاشبہ پروفیسر عبدالرحیم قدوائی کے ایک ہاتھ میں جام شریعت اور دوسرے میں سندان عشق رہتا ہے۔ اس لئے ان کی سربراہی میں اس مرکز علوم القرآن کا کتب خانہ مطالعات قرآنی پر انتہائی متمول ہو چکا ہے۔

اس میں بطور خاص قرآن کی تفاسیر، قرآن کے تراجم اور عربی، انگلش اور ہندی میں قرآنیات پر بڑا ذخیرہ موجود ہے۔ ابھی حال میں مرکز کے کتب خانے میں دنیا کی مشہور 91زبانوں میں قرآن کے تراجم کو شامل کیا گیا ہے اور اس طرح قرآنیات پر ریسرچ اور تحقیق کے لئے یہ کتب خانہ اہل علم کے لئے ایک مرجع کی حیثیت اختیار کر چکا ہے۔ اس مرکز علوم القرآن میں اس کے علاوہ قرآن سے متعلق موضوعات پر وقتاً فوقتاً اہل علم کو بلا کر توسیعی خطبات کا اہتمام بھی کیا جاتا ہے۔

کل یہ بات ازراہ تفنن کہی جاتی تھی کہ قرآن کریم عربوں میں خدائے بزرگ و برتر کی طرف سے نازل ہوا، مصریوں نے اپنے لحن سے اسے حسن قرأت بخشا، ایرانیوں نے اپنے موئے قلم سے اس کو نئی جمالیاتی جہت عطا کی اور ہندوستانیوں نے اس کے مطالیب و معانی کو خوب سمجھا۔ لیکن علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں خلیق احمد نظامی مرکز علوم القرآن جس طرح علمی، تدریسی اور تحقیقی سرگرمیوں میں مصروف ہے اس سے لگتا ہے کہ وہ ہندوستان کے بارے میں اس رائے اور تأثر کو کسی حد تک سچ ٹھہرا رہا ہے، جس کے لئے پروفیسر طارق منصور، وائس چانسلر، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اور پروفیسر عبدالرحیم قدوائی مبارکباد کے مستحق ہیں۔

(مضمون نگار مولانا آزاد یونیورسٹی جودھپور کے صدر اور جامعہ ملیہ اسلامیہ کے پروفیسر ایمریٹس ہیں۔)