یوکرین کی جنگ: دنیا سے ’مہمان’ نایاب پرندوں کو شکار نہ کرنے کی اپیل

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | 2 Years ago
  یوکرین کی جنگ: ’مہمان’  نایاب پرندوں کو شکار نہ کرنے کی اپیل
یوکرین کی جنگ: ’مہمان’ نایاب پرندوں کو شکار نہ کرنے کی اپیل

 

 

آواز دی وائس : نئی دہلی 

روس نے یوکرین کی اینٹ سے اینٹ بجا رکھی ہے،مرکزی ایشیا میں جنگ کے بادل گہرے ہوتے جارہے ہیں ،ایک جانب پناہ گزینوں کا انسانی بحران ہے تو دوسری جانب ماحولیاتی چیلنج سامنے آگئے ہیں ۔انسانوں کے ساتھ بے زبان پرندوں کے لیے آسمان تنگ ہوگیا ہے۔ ان کی نقل و حمل  متاثر ہورہی ہے بلکہ ان کے راہ بھٹکنے اور شکار بن جانے کا خطرہ بڑھ گیا ہے،جنگ کے سبب نایاب پرندے بشمول سارس یوکرین سے پرواز کرسکتے ہیں،جو دیگر وممالک میں ہجرت کرچکے ہیں ان کی واپسی کا راستہ محفوظ نہیں ہے۔ اس لیے ماہرین نے درخواست کی ہے کہ ہندوستان ،پاکستان اور افغانستان نمیں جہاں سارس اور دیگر نایاب پرندے ’مہمان‘ کے طور پر آئیں ان کا شکار نہ کریں ۔

 اس جنگ کے سبب کسی کی توجہ اقوام متحدہ کی اس رپورٹ کی جانب مبذول نہیں ہوسکی جس میں کہا گیا ہے کہ عالمی درجۂ حرارت میں اضافے کی وجہ سے جانوروں کی معدوم ہوتی نسلیں، ماحولیاتی نظام کی تباہی، مچھروں سے پیدا ہونے والی بیماریاں، سخت گرم موسم، پانی کی قلت اور فصلوں کی کم ہوتی پیداوار جیسے مسائل مزید بڑھ رہے ہیں ۔

 ماہرین نے کہا ہے کہ روس کے یوکرین پر حملے کے نتیجے میں  سارس دیگر ممالک کی جانب ہجرت کررہے ہیں۔ جن کے لیے ہر کسی کو فکر مند ہونا چاہیے کیونکہ یہ ایسے پناہ گزیں ہونگے جن کی جانب کسی کی توجہ نہیں جائے گی بلکہ ظلم یہ ہوسکتا ہے کہ انہیں شکار بنایا جائے۔اس لیے ماہرین نے خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے اور ایک عام اپیل بھی کی ہے کہ جن ممالک میں سارس رخ کریں انہیں نشانہ بن بنایا جائے کیونکہ  یہ پرندے موسمی ہجرت نہیں بلکہ جنگ کی وجہ سے نقل مکانی کرکے  ہندوستان اور پاکستان آئیں گے۔

مہمان ہیں یہ پرندے

ان حالات میں نایاب پرندوں کی زندگی کا دائرہ تنگ ہورہا ہے۔ ویڈلا سارس کی ایک نایاب نسل ہے، جس کی مادہ اپنی خوبصورتی کے باعث دنیا بھر میں شہرت رکھتی ہے۔ یہ پرندے گزشتہ دو برس سے قازقستان سے اکتوبر میں ہجرت کر کے احمد آباد (گجرات) کی آبی پناہ گاہ میں چھ ماہ تک قیام کرتے ہیں۔ اور اپریل کے اوائل میں پاکستان میں سندھ اور بلوچستان کے کچھ علاقوں سے گزرتے ہوئے افغانستان کے راستے اپنی بریڈنگ سائٹ قازقستان اور یوکرین ہجرت کر جاتے ہیں۔

وائلڈ لائف انسٹی ٹیوٹ ڈیرہ دھون انڈیا کےسینیئر محقق ڈاکٹر سریش کمار نے بتایا کہ عام سارس کو وسطی ایشیا کی اہم انواع میں سے ایک سمجھا جاتا ہے، جن کی طویل ہجرت کو جی پی ایس کے ذریعے با آسانی ٹریک کیا جا سکتا ہے۔ہم گزشتہ دو برس سے اس پراجیکٹ پر کام کر رہے ہیں۔

 ماضی میں بہت بڑی تعداد میں سارس ہندوستان سے پاکستان کے راستے ہجرت کر کے روس، قازقستان وغیرہ تک جاتی تھیں مگر اب ان کی تعداد میں نمایاں کمی دیکھنے میں آرہی ہے۔جبکہ اب جنگی حالات نے ان سارسوں کے لیے مزید مشکلات پیدا کردی ہیں ۔

پاکستان میں بھی الرٹ 

پاکستان کے محکمہ جنگلات نے اپنے جاری کیے جانے والے بیان میں لکھا ہے کہ ’روس اور یوکرین جنگ کی وجہ سے لاکھوں سارس (آبی پرندے) مختلف ممالک کی جانب نقل مکانی کر رہے ہیں۔ پاکستان کی عوام سے عاجزانہ درخواست ہے کہ ان بے زبان مہمان پرندوں کا خیال رکھیں اور ان کا شکار نہ کریں کیوں کہ یہ ان کی موسمی ہجرت نہیں ہے بلکہ پریشان کن ماحول کی وجہ سے نقل مکانی ہے۔

یاد رہے کہ روس اور یوکرین کے اطراف سے ہر سال موسمی حالات کی وجہ سے کرین پرندے ہندوستان ، پاکستان اور افغانستان نقل مکانی کرتے ہیں۔ دنیا میں کرین یا سارس ان پرندوں میں شامل ہیں جن کی نسل معدوم ہونے کی قریب ہے اور ان کو بین الاقوامی سطح پر معدومی کے شکار پرندوں کی فہرست میں شامل کیا گیا ہے۔

بین الاقوامی تنظیم ’سیونگ کرینز‘ کے مطابق سارس ایک ایسا پرندہ ہے جس کو سرحدوں کا اندازہ نہں ہوتا اور یہی وجہ ہے کہ سارے ممالک اس پرندے کی نسل کو ختم ہونے سے بچانے کے لیے کوششیں کر رہے ہیں۔ سارس کی نقل مکانی سائبیریا سے گرمی کے موسم میں شروع ہوجاتی ہے اور اس کی واپسی مارچ میں ہوتی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ستمبر میں یہ دوبارہ سائبیریا سے ہجرت کر کے ہندوستان ، پاکستان اور افغانستان آتے ہیں اور یہی ان کا مستقل راستہ ہے کیوں کہ کرین سرد موسم میں زندہ رہ سکتے ہیں۔

سارس کی کتنی اقسام ہیں؟

امریکی تنظیم انٹرنیشنل کرین فاونڈیشن دنیا میں سارس کی نسل بچانے کے لیے کام کر رہی ہے۔اس تنظیم کی ویب سائٹ کے مطابق سارس دنیا میں پرندوں کی نسل میں واحد پرندہ ہے جو سب سے زیادہ معدومی کا شکار ہے۔ تنظیم کے مطابق دنیا میں سارس کی 15 اقسام میں سے 11 کو شدید خطرہ لاحق ہے۔

سارس کی اقسام میں بلیک کروانڈ کرین، بلیک نیکڈ کرین، بلیو کرین، برولگا، ڈیموسیل کرین، یورو ایشیئن کرین، گرے کراونڈ کرین، ہوڈڈ کرین، ریڈ کراونڈ کرین، سینڈ ہل کرین، ساروس کرین، سائبیرین کرین، وائٹ نیپڈ کرین، اور ووپنگ کرین شامل ہیں۔ اسی تنظیم کے مطابق کرین کی نسل ختم ہونے کے خطرے کی مختلف وجوہات ہیں جس میں اس پرندے کے لیے موزوں موسم نہ ہونا، شکار، زراعت کے طریقوں میں تبدیلی اور کچھ علاقوں میں اس کو پکڑنا شامل ہے۔