ترنگا ہماری شان اور پہچان ہے ۔پروفیسر اخترالوسع

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 04-08-2022
ترنگا ہماری شان اور پہچان ہے ۔پروفیسر اخترالوسع
ترنگا ہماری شان اور پہچان ہے ۔پروفیسر اخترالوسع

 

 

منصور الدین فریدی : آواز دی وائس

 ترنگا ہماری شان ہے،ترنگا ہماری آن ہے اور ترنگا ہماری پہچان ہے۔ یہی نہیں ترنگا ہمیں جوڑتا ہے بلکہ دنیا میں ہماری پہچان ہے ترنگا۔  جشن آزادی کے موقع پر ترنگا لہرانا چاہیے ،یہ تو  تہوار سے بڑھ کر ہے۔دو تین دن کیا ہر ہندوستانی کو اپنے گھر پر لہراتا رہنا چاہیے ترنگا۔

  ان تاثرات کا اظہار ممتاز اسلامی اسکالر اور خسرو فاونڈیشن کے ڈائریکٹر پروفیسر اختر الوسع نے کیا۔

ملک آزادی کے تاریخی جشن کی آہٹ ہے ،ملک اپنی آزادی کے 75 سال پورے کررہا ہے۔ بلاشبہ ہر کسی میں ایک غیر معمولی جوش اور جذبہ ہے۔آزادی کے جشن کے ساتھ ساتھ آزادی کی جدوجہد کرنے والے مجاہدین کو یاد کرنے اور خراج عقیدت پیش کرنے کا بھی موقع ہوتا ہے۔ بہرحال یہ جشن کسی ایک برادری یا طبقہ کا نہیں بلکہ یہ ہر ہندوستانی کے لیے ایک بڑے جشن کا موقع ہے۔ فخر کرنے کا موقع ہے۔ کیونکہ اس ملک کی آزادی کی جنگ میں ہر کسی نے برابر کا حصہ لیا تھا۔اس لیے جشن آزادی سب کے لیے فرض ہے۔

  پروفیسر اختر الوسع نے کہا کہ آزادی کا جشن کسی ایک فرقے کا نہیں بلکہ  ہر کسی کا ہے۔ اس آزادی کے لیے کیا ہندو ، کیا مسلمان ،کیا سکھ اور کیا عیسائی سب نے قربایاں دی ہیں ۔ ہم کو نہیں بھولنا چاہیے کہ 1757 بمیں سراج الدولہ  پلاسی میں شہادت پائی  اس کے بعد  1857 میں ٹیپو سلطان کی شہادت  اور پھر 1857 میں بہادر شاہ ظفرکی قیادت میں بغاوت ۔ اس میں ہر ہندوستانی کی شرکت نے اتحاد کی بہترین مثال قائم کی تھی۔

انہوں نے مزید کہا کہاس کے ساتھ1806 میں ولور میں انگریزوں کے خلاف اندولن میں جہاں مسلمان فقیروں  نے حصہ لیا تھا تو ہندووں کی جانب سے لنگر سنیاسی میدان میں تھے۔یہی نہیں جھانسی کی رانی کے ساتھ حضرت محل کا نام آتا ہے جو جواں مردی سے انگریزوں کے خلاف لڑیں ۔جس کے سبب ہم اس جنگ میں خواتین کی حصہ داری سے انکار نہیں کرسکتے۔

 پروفیسر اختر الواسع نے کہا کہ یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ علما نے اس نامک وقت میں انگریزوں کے خلاف جنگ کا فتوی دیا۔ اس کی قیمت اپنی گردنیں کٹوا کر ادا کی لیکن پیچھے نہیں ہٹے۔اگر بات کالا پانی کی کریں تو  ہندووں کے ساتھ مسلمان بھی کالا پانی گئے۔ یہی نہیں جب افغانستان میں 1915 میں پہلی جلا وطن حکومت قائم ہوئی تو اس کے صدر      اور وزیر اعظم  برکت اللہ بھوپالی بنا ئے گئے تھے۔ اس کے وزیر خارجہ مولانا عبداللہ سندھی بنائے گئے تھے۔

 پروفیسر اختر الوسع نے کہا کہ ہمیں نہیں بھولنا چاہیے کہ مہاتما گاندھی کی قیادت میں کانگریس نے جنگ آزادی کی کمان سنبھالی تھی۔کانگریس گاندھی کے ظہور سے قبل ہی آزادی کی جدوجہد کررہی تھی۔اس کے ساتھ ہم مولانا ابولکلام آزاد کے کردار  بھی نہیں بھول سکتے ہیں  جن کے الہلال البلاغ نے زبردست بیداری پیدا کی تھی۔ وہ 1923 میں کانگریس کے سب سے کم عمر صدر بھی بنے تھے اور سب سے لمبی مدت تک اس عہدے پر فائز رہے تھے۔

ان کے ساتھ بدر الدین طیب جی ،حکیم اجمل خان ،ڈاکٹر مختار احمد انصاری ،محمد علی جوہر جیسے ناموں کو کون بھول سکتا ہے۔اس لیے ہم سب کا فرض بنتا ہے کہ ہم جشن آزادی کو تاریخی بنائیں ۔اس موقع کو اپنے بزرگوں کی قربانیوں کے بارے میں دنیا کا آگاہ کرنے کے لیے استعمال کریں ۔