انسانی خدمت سے بڑا کوئی مذہب نہیں: محمد عاصم

Story by  اے ٹی وی | Posted by  Shah Imran Hasan | 1 Years ago
انسانی خدمت سے بڑا کوئی مذہب نہیں: محمد عاصم
انسانی خدمت سے بڑا کوئی مذہب نہیں: محمد عاصم

 

 

ملک اصغر ہاشمی،نئی دہلی

انسان سات سمندر پار جائے اور اس کے بعد بھی اگر اپنی سرزمین سے جڑا رہے بلکہ اپنی محنت کی کمائی سے اپنی سر زمین پر معاشرے کو بہتر بنانے کے لیے متحرک ہو تو اس کو انسانی خدمت کہتے ہیں ۔ عام طورایک کامیاب اڑان کے بعد انسان اپنی زمین بھول جاتا ہے،قدم زمین پر نہیں ہوتے اور دماغ ساتویں آسمان پر پہنچ جاتا ہے ، عیش و آرام میں ڈوب کر ان ذمہ داریوں کو بھول جاتا ہے جو ایک معاشرے کے لیے اس کا فرض ہوتی ہیں لیکن محمد عاصم ایک ایسا نام ہے جن کا تعلق یوں تو دہرا دون سے ہے لیکن وہ تین دہائیوں سے بیرون ملک میں ملازمت کے باوجود اپنے آبائی وطن سے جڑے ہوئے ہیں اور اپنے معاشرے کی بہتری کے لیے تعلیم اور صحت کے میدان میں  کچھ کرنا چاہتے ہیں اور مسلسل کررہے ہیں ۔

انہوں نے غریب خاندانوں کو معمولی فیس پر معیاری تعلیم اور صحت کی سہولیات فراہم کرنے کا منصوبہ بنایا ، آہستہ آہستہ لوگ ان کی مدد کے لیے آنے لگے۔ اسی سلسلے میں جلد ہی ممبئی سے ایک ٹیچر دہرادون آنے والے ہیں۔

دراصل محمد عاصم پہاڑی ہیں اور اپنی زمین اور یہاں کے لوگوں کے لیے کچھ بہتر کرنا چاہتے ہیں۔

وہ گزشتہ 30 سالوں سے بیرون ملک رہنے کے باوجود وقفے وقفے سے مقامی دوستوں اور شہریوں سے ملنے کے لیے دہرادون آتے ہیں۔ این آر آئی ہونے کے باوجود وہ ایک عام پہاڑی ہیں۔ محمد عاصم نے کامیابی کی چوٹی کو چھو لیا ہے لیکن وہ اپنی جڑوں سے جڑے ہوئے ہیں۔ یہ ان کا کلچر ہے کہ چاہے وہ کسی بھی مذہب سے تعلق رکھتا ہو، اگر اسے کوئی مشکل پیش آتی ہے تو وہ فوراً اس کی مدد کے لیے آگے آتے ہیں۔ عاصم کے مطابق انسانیت سب سے بڑا مذہب ہے۔

آواز دی وائس سے فون پر بات کرتے ہوئے ان کا کہنا ہے کہ تمام مذاہب میں کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جو مذہب کے نام پر رکاوٹیں کھڑی کرنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن میں نے ہمیشہ انسانیت کو ترجیح دی ہے۔ مذہب میرا ذاتی معاملہ ہے اور میں اس پر سختی سے عمل کرتا ہوں۔

محمد عاصم کا خاندان سہستردھارا روڈ پر واقع میور وہار میں رہتا ہے۔ ان کے والد مرحوم محمد طاہر اور والدہ مقصودہ ہیں۔ وہ چار بھائی ہیں۔ عاصم بتاتے ہیں کہ ان کے والد اسے سکھایا کرتے تھے کہ وہ مصیبت کے وقت دوسروں کی مدد کریں۔ اگر ہو سکے تو معاشرے میں اپنا حصہ ادا کریں۔

محمد عاصم نے سنہ 2007 میں چندن وہار میں ایک پلے اسکول کھولا، جس میں گذشتہ 15 سالوں سے بچوں کو انتہائی معمولی فیس پر معیاری تعلیم دی جارہی ہے۔اب وہ اسی طرح مڈل اسکول چلانے کی تیاری کر رہےہیں تاکہ بچوں کو بااخلاق بنایا جا سکے۔ اس کے لیے کوششیں جاری ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ انہیں اس کوشش میں جلد کامیابی ملنے کی امید ہے۔ وہ کہتے ہیں اسکول کی زمین ان کی اپنی ہے، اس لیے اس منصوبے کو مکمل ہونے میں زیادہ دیر نہیں لگے گی۔

محمد عاصم اس وقت سعودی عرب میں  مقیم ہیں۔ وہ سعودی ارم نامی کمپنی میں میٹریل مینجمنٹ دیکھتے ہیں۔ انہوں نے خود تیل اور گیس سے متعلق مشین مینجمنٹ کی تعلیم حاصل کی ہے۔ ان کی ملازمت کا دورانہ 28 دن ہے۔ وہ 28 دن کام کرتے ہیں اور پھر 28 دن چھٹی پر رہتے ہیں،مگر انہیں تنخواہ پوری  ملتی ہے۔اس لیے وہ چھٹی کے دوران دہرادون آ جاتے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ انہوں نے بچپن میں اپنے والد کی جدوجہد دیکھی ہے۔ میں نے بھی ان سے ایمانداری سیکھی ہے۔

غریبوں کے لیے اسپتال کھولنے کا ارادہ

محمد عاصم دہرادون میں غریبوں کے لیے ایک اسپتال کھولنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ملک میں تعلیم اور صحت بہت مہنگی ہے۔ ایسے میں عام آدمی کے لیے بہتر صحت اور تعلیم حاصل کرنے کے لیے بہت زیادہ مشکلات کا سامنا ہے۔ بلکہ بہت سے لوگوں کے لیے یہ ناممکن ہے، کیونکہ دونوں بہت مہنگے ہیں۔

ایسے میں اسکول کے ساتھ اسپتال کھولنے کی کوشش کی جارہی ہے، جہاں غریبوں کا مفت علاج ہوسکے۔ اس سمت میں زمین اور لائسنس سے متعلق کام تیزی سے جاری ہے۔ توقع ہے کہ کچھ لوگ اس اسکیم کو پائے تکمیل تک پہنچانے میں ان کا تعاون کریں گے۔

کورونا میں لوگوں کی امداد

سماجی کارکن محمد عاصم زمین سے جڑے ہوئے ہیں۔ دنیا کے کئی ممالک میں کام کر چکے ہیں۔ حال ہی میں مالدیوتا میں شدید بارش کی وجہ سے تباہی ہوئی تھی۔ وہ ان دنوں دہرادون میں تھے۔

پھر آفت زدہ لوگوں کی مدد کے لیے آگے آئے۔ اس دوران وہ گاندھی پارک متاثرین کی مدد کے لیے چوبیس گھنٹے مصروف رہے۔ اسی طرح کورونا کے دور میں جب حکومت ادویات کی خریداری میں ناکام رہی تو عاصم نے متاثرین کی ہر ممکن مدد کرنے کی کوشش کی۔