قطب مینار- پوری طرح اسلامی عمارت:کے کے محمد

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 12-02-2021
(کے کے محمد(ماہرآثارقدیمہ
(کے کے محمد(ماہرآثارقدیمہ

 

۔۔ تاج محل ،صبح ایک،۱۰بجے دوسرا،شام کو تیسراتو رات میں ہوتا ہے چوتھا موڈ  

۔۔ تاج محل کےسلسلے میں ملک کے معروف ماہرآثار قدیمہ کے کے محمدنے کئے ہیں کئی ریسرچ

۔۔ ہڑپااور موہن جوداڑوکی ٹائم پلاننگ آج بھی ہمارے بڑے بڑے شہروں سے ہے غائب۔

۔۔ حیدرآبادیا ہندوستان میں ہی نہیں بلکہ پوری دنیا میں کام کر رہا ہے آغا خان فائونڈیشن

تاج محل کے چینجنگ موڈ آف تاج محل، اگر آپ سے کہیں کہ تاج محل ایک ایسی عمارت ہے جس کا صبح ایک موڈ ہوگا،دس بجے ایک دوسرا موڈ ہوگا، پھر شام کو تیسرا اور رات میں چوتھا موڈ ہوگا تو آپ یقین نہیں کریں گے لیکن وہاں کے لوگوں سے پوچھوگے تو وہ بتائیںگے ۔ اسی طرح بارش ہونے والی ہوتب تاج محل دیکھئے گا، بہت خوبصورت لگے گا۔ سورج غروب ہونے کے وقت آپ دیکھیں گے تو اور بھی اچھا لگے گا۔یہ کہنا ہےہمارے ملک کے معروف ماہرآثار قدیمہ کے کے محمد کا۔وہ آواز دی وائس ہندی کے ایڈیٹرملک اصغر ہاشمی سے خاص بات چیت کر رہے تھے۔

سوال: ریٹائرمنٹ کے بعد آپ حیدرآباد میں رہے، آغافانونڈیشن میں رہے اور آپ نے ہمایوں ٹومب پر بہت کام کیا ہے۔ تین سال کا جو سفر حیدر آباد کا رہا اس کے بارے میں کچھ بتائیں۔

جواب:حیدرآباد میں ،میں نے سیون ٹومب کرکے آغا خان فائونڈیشن ایک ایسا ٹرسٹ ہے جو صرف حیدر آباد اور ہندوستان میں ہی نہیں بلکہ پوری دنیا میں کام کر رہا ہے۔ پاکستان، افغانستان اور مصر میں بھی ان کا کام چل رہاہے۔ اسی طرح اور غریب لوگوں کے ایجوکیشن کے لئے ساتھ ہی پٹنہ میں بھی ان کا تعلیم پر کام چل رہا ہے۔ پورے ہندوستان میں جو آرکیالوجک کنزرویشن کا کام ہے وہ رتیش نندہ ہے، یہ پورا ادارہ انھوں نے ہی کھڑا کردیا ہے۔

آج جو آپ ہمایوں ٹومب دیکھ رہے ہیں، جو اب بہت ہی اچھا ہوگیا ہے، بہت ہی اچھا کنزرویشن کیا۔ وہی جو کنزرویشن آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا سے ہوتا تو اتنا عمدہ نہیں ہوپاتاکیونکہ ہمارا سرکاری نظام ہونے کی وجہ سے بہت ساری مالی پابندیاں ہیں۔اس پر قابو نہیں پاسکتے تو ہم لوگ اتنا نہیں کرپاتے جتنا انھوں نے کیا۔ ابھی وہ ایک انٹرپریٹیشن سنٹر بھی بنارہے ہیں۔ اس میں آپ کو بہت اچھا مغل میوزیم بھی ملے گا اور اس کے علاوہ پارکنگ کی بھی پوری سہولیتیں ہونگی۔ یہ ایک بہت بڑا پروجیکٹ ہے۔

اس کی دوسری کڑی جو حیدرآباد میں سیوین گولکنڈہ فورٹ کے پاس سیوین ٹومبس ہیں،وہاں پر بھی ہم نے ایک دیکھ بھال اور کنزرویشن کا کام کیا۔ پھر وہاں کے مقامی لوگ ان کو کیا کیا سہولتیں دے سکتے ہیں۔ تاریخی عمارت کے آس پاس کا علاقہ، اس کو ڈیولپ کرنے کے لئے کوشش کرتے ہیں۔ جس آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا کو آس پاس کے لوگوں سے کوئی مطلب نہیں ہے۔ آغاخان ٹرسٹ میں وہ بھی کام کرسکتے ہیں۔ جو کام میں دلی میں اپنی جانب سے کیا کرتاتھا، واقعی اسی طریقے کاکام آغاخان کے کئی ونگ ہیں جو کرتے رہتے ہیں۔

سوال: جب بھی کسی دوسرے ملک کے لیڈر آتے ہیں تو آپ کو وہاں بھیجا جاتا تھا۔آپ سے سینئر لوگ تھے، ان کو نہ بھیج کر،آپ کو بھیجا جاتا تھا، اس کا کیا راز ہے؟

جواب:ایسا نہیں ہے، بس کچھ اتفاق ہے۔ پہلے میں پٹنہ میں تھا،اس کے بعد ٹرانسفر ہواآگرہ، لیکن یہ اس وقت میں ہواتھا جب پرویز مشرف ارہے تھے۔ ان کے آنے کے پندرہ بیس دن پہلے ہی میرا ٹرانسفر ہواتھا۔ تاج محل کو تو اس سے پہلے بھی میں گائیڈکیاکرتاتھا۔ علی گڑھ مسلم یونویرسٹی سے جب بھی کوئی آتا تھا۔تو میں ہی گائیڈ کرتاتھا۔ میں نے تاج محل کے بارے میں کافی تحقیق کی ہے۔ جیسے تاج محل کے چنجنگ موڈ آف تاج محل، اگر آپ سے کہیں کہ تاج محل ایک ایسی عمارت ہے جس کا صبح ایک موڈ ہوگا، دس بجے ایک دوسرا موڈ ہوگا،شام کو تیسرا اور رات کو چوتھا موڈ ہوگا۔تو آپ یقین نہیں کریں گے لیکن وہاں کے لوگوں سے پوچھوگے تو وہ بتائینگے۔

اسی طرح بارش ہونے والی ہوتب تاج محل دیکھئے گا تو بہت خوبصورت لگے گا۔ سورج غروب ہونے کے وقت آپ جائیں اور بھی اچھا لگے گا۔ صبح جائےگا تو بہت پرسکون لگےگا تو اس کے حساب سے قرآن کی جو آیت وہ جو نقش ہے نا ،آپ کو سورہ الفجرمطلب سویرے علی الصباح،اسی طرح کا موڈ ہے۔دوسری جانب آپ کو ملے گی سورہ الضحی، اس کا مطلب ہے کہ دس بجے کیا موڈ ملے گا؟ والشمس تجری ،سورج جب اپنے عروج پر پہنچے گا۔

وہ کیا ہوگا پھر آپ کو کہیں پر بھی،سورہ اللیل، مطلب رات عربی میں، اسی طرح سے قرآنی آیت بدلتی رہتی ہیں۔ تب اس کا گیٹ وے تھا اندر کی پورشن کا،گیٹ پر کھڑے ہوجائیے گا تو نیچے کے حروف چھوٹے ہونگے۔ اوپر جاتے جاتےبڑے ہوجائینگےلیکن آپ کو یہ لگے گا کہ یہ بالکل یکساں ہے، یہ بالکل سائنٹفک ہے۔ کاریگرہی کافی پہلے سمجھ گیا تھا کہ اوپر جاتے ہوئے لوگ پڑھ نہیں پائیں گے لیکن آپ کو کوئی مشکل نہیں ہے، ادھر سے ادھر کا بھی پڑھ سکتے ہیں تو اوپر کا کتبہ تھوڑابڑارہے گا۔ آپ کے آرٹیفیشیل کریکشن کے لئے تو اس طرح کی بہت سی چیزیں تاج محل میں ہیں۔

kk

سوال: ہڑپا اور موہن جوداڑو کی جو علامتیں ہیں اس کو آج کے زمانے سے، کیسے مطابقت کرسکتے ہیں؟

جواب: دیکھئے اس وقت کی ٹائون پلاننگ بھی بہت اچھی تھی جو آج بھی ہمارے بڑے بڑے شہروں میں نہیں ہےلیکن اس زمانے میں بھی ان کے پاس اتنی زبردست ٹائون پلاننگ تھئ،گندہ پانی جو ایک شاک پٹ پر جایا کرتا تھا، پھر نالی میں جاکر باہرجاتاتھا۔ اور نالی روڈ کے دونوں سائڈ میں ہواکرتی تھی۔ یہ ٹائون پلاننگ کا سسٹم ایک بڑی مثال تھا جو آپ کو میسوپوٹامیین کلچر، مصری تہذیب یا چینی میں بھی نہیں ملے گا۔ اتنی زبردست ٹائون پلاننگ جو ہڑپا والوں نے، دونوں جگہ ہڑپا اور موہن جوداڑو،ان دونوں جگہوں پر کی اور بھی جو جتنے بھی ہیں، بہت ساری جگہ ابھی کھدائی کی۔ ان ساری جگہوں پر یہ اکائونٹ کیننگ کی سہولت بہت ہی اچھی ہوتی ہے۔

سوال:آج کا جو یوتھ ہے،وہ تاریخ کے مضمون کو کسی مقابلے میں کیسے استعمال کرسکتاہے یا کیسے لکچرر بن سکتے ہیں،اس نظریے سے نہیں دیکھتاکہ آپ جیسا بن سکے۔ دیش دنیا میں آپ جیسا نام کمانے والا بن سکتا ہے۔آپ جیسا تاریخ داں بنناہوتو کیا پڑھنا ہوگااور کیسے پڑھنا ہوگا؟

جواب:اس میں دو چیزیں ہونا چاہئے،اک تومضمون کے لئے بالکل جذبہ ہونا چاہئے،کیونکہ یہ کام آسان نہیں ہے۔ یہ جیسے آپ ہسٹری میں تحقیق کرتے ہیں،اسی طریقے سے آپ تو کمرے میں بیٹھئے گا،وہاں آپ کو ساری سہولتیں ملیں گی، اسی طریقے کی لائبریری میں بٹھ جائیے،آپ یہ کام نہیں کرسکتے ہیں۔ اس کے لئے آپ کو گھومنا پڑے گا، بارش میں دھوپ میں، چلنے پھرنے کے لئے اگر آپ تیار ہیں اور پھر جب جذبہ ہو تب ہی آپ آرکیالوجسٹ بن سکتے ہیں۔

دوسرا آپ کو مقابلہ کرنے کے لئے آپ کو پیچھے کھینچنے کے لئے ، آپ کی ترقی روکنے ولاایک آدمی اور ہونا چاہئے۔ جیسا میرے کیس میں ہوا۔میں ابھی ان لوگوں کو سلام کرتا ہوں جس کی وجہ سے میں اس مقام پر ہوں کیونکی انھوں نے اپنا کام ٹھیک سے نبھایا نہیں جس کی وجہ سے آپ اس سے آگے جاپائیںگے۔

اس کے لئے بھی کچھ کتابیں ہیں، جیسے شخصیت کے ارتقا کی کتابیں، وہی ہمارے زمانے میں ہوا کرتی تھیں، ڈیل کارنیگی کی کتابیں، نیپولین ہل کی کتابیں اور اس شخصی ارتقا کے لئے اور بھی بہت سی کتابیں ہیں۔ آپ پڑھتے رہیں گے اس سے آپ کی ایک مضبوط شخصیت بنیگی۔

سوال:جو آپ کی آپ بیتی آئی تھی جس میں آپ نے کہا تھاکہ ایودھیا جو ہے مندر کے اوپر مسجد بنائی گئی تھی، اس کے بعد تنازعہ پیدا ہوا اور آپ کو غلط ثابت کرنے کی کوشش کی گئی لیکن اسی طریقے سے کچھ لوگوں کو بولنے کا موقع مل گیا۔ قطب مینار بھی شیوالیہ ہے، تاج محل بھی شیوالیہ پر ہے ۔ آپ کی نظرمیں کیا ہے؟

جواب: اب دیکھئے قطب مینار میں دو چیزیں ہیں۔ایک تو قطب میناردوسری ہے اس کے بغل میں قوۃ الاسلام مسجد۔ پہلے مندر تھا تو اس میں جین مندر بھی ہیں، ہند ومندر بھی ہیں۔ آپ کو بہت ساری مورتیاں ملیں گی۔ مورتیوں کو توڑ کر ہی انھوں نے یہ مسجد بنائی ہے جو قوت الاسلام مسجد ہے وہ بالکل صحیح ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں۔اس کے بارے میں اس زمانے کی جو کتابیں عربی والے، اسی مسجدکے بارے میں تاج المآثر کرکے کتاب ہے اس میں حسن نظامی نے لکھا ہے اس کتاب میں بھی ہے اور مسجد کے سامنے جانا ایک کتبہ بھی ہے،کچھ چیزیں ہیں جو ہواہے وہ غلط ہواہے۔

وہ اسلام میں نہیں ہے۔ اسلام یہ کہتا ہے،اسلام کی دعوت دیدیجئے، صحیح طریقے سے حکمت سے دعوت دیدیجئے، کسی سے بحث بھی کرنا ہے تو اچھے طریقے سے کیجئے۔ دوسرے کوگالی بھی نہیں دے سکتے۔ یہ ہے اسلام کا نظریہ۔ لیکن جو ادھر ادھر افغان سے آئے تھے، انھوں نے کافی غلط کام کیا ہے۔ کافی مندر توڑے،اس کو قبول کرنے میں مسلمانوں کو کوئی دقت نہیں ہونی چاہئے۔ ان لوگوں نے غلطی کی تھی لیکن اس کے لئے آج کے مسلمان ذمہ دار نہیں ہیں۔ مسلمانوں کو ایک اور غلطی نہیں کرنی چاہئے جو آج کل وہ کر رہے ہیں۔ انھیں صحیح قرار دینے کی کوشش مت کیجئے۔

انگریزوں نے بہت غلطی کی۔ درست قراردینے کی کوشش کریں گے تو چیزیں خراب ہوجائیں گی۔ ہندوازم میں بہت تحمل ہے۔ اشوکاکی پوجا کیجئے، وشنو کی پوجا کیجئے، آپ مندر میں مت جائیئے۔ بہت بڑا ریلیجن ملا ہے اس سے مسلمانوں کو فائدہ اٹھانا چاہیئے۔

ایک تو یہ ہے دوسری ہے قطب مینار۔ پوری طرح سے اسلامی عمارت ہے۔ اس سے پہلے افغانستان میں بھی اسی طرح کے مینار بنتے رہے ہیں۔ مصر میں جو سب سے بڑی مینار بنائی ہے وہ ہندوستان میں کیونکہ ہم لوگ پتھر سے بہت اچھے اچھے مندر بناتے تھے۔ کھجوراہو کے مندر کو دیکھئے۔ بہت ہی خوبصورت اور پتھر کی کاریگری ہے اور جو تصور ہے وہ اسلامی ہے۔ یہ دونوں جب مل گئیں تو بہت ہی خوبصورت چیزیں بن گئی ہیں۔ وہیں قطب میناراور جو شدت پسند ہندو ازم ہے وہ پوری کوشش کرتا ہے کہ وشنو مندر تھا۔ یہ سب چیزیں غلط ہیں۔

کئی مذاکروں میں خود مجھے بھی جانا پڑا۔یا تاج محل کے بارے میں جو کہتے ہیں۔میں نے ہندوستان میں سو سے زائد مندروں میں خود اس کو ٹھیک کیا ہے۔ میں نے ابھی تک تو، تیجومہالیہ کے بارے میں معلوم نہیں ہے۔ کسی بھی مورتی کی میں نے ابھی تک پوجا نہیں کی ہے۔ یہ مجھے کیا کسی کو بھی اس کے بارے میں پتہ نہیں ہے۔ تاج محل میں ہے کیا؟ یہ ایک مینار ہے۔ یہ ہندو عہد میں نہیں تھی۔ در،ہندو عہد میں نہیں تھے۔ گنبد تبلیغ اسلامی ہے۔ سلطان کے دور میں سنگل گنبد تھا۔ تاج محل میں ڈبل گنبد۔ پہلی بار ہمایوں ٹومب بنایاتھا۔ہندو شدت پسندوں کا کہنا ہے کہ گیارہویں صدی عدیسوی کا ہے۔ گیارہویں صدی عیسوی میں نہ در تھے، نہ گنبد تھے، نہ ذری کا کام ،نہ ہی زیورات کی سجاوٹ، نہ ہی مینار تھے۔ کچھ بھی نہیں تھا۔

اور یہ تاج محل یا ہمایوں ٹومب لے لیجئے، اسی طرح سے جو اکبر کا سکندرہ ہے اس سے آپ میناریں لے لیجئے۔ پھرسلیم چشتی کے مقبرے کا زری ورک لے لیجئے اور یہ ساری چیزیں آپ ایک جگہ پر لے لجئے۔ تو تاج محل بن جائے گا اور یہ منطقی ہے۔ اگر کوئی مندر کہتا ہے تو غیرضروری تنازعہ پیدا کرنے کے لئے کہتاہے۔

kk

 سوال: جب آپ نے کہااجودھیا میں نیچے مندر ہے تو مسلمان بہت ناراض ہوئے۔ بعد میں سپریم کورٹ میں جو فیصلہ آیا لگ بھگ وہی تھا۔ آپ نے جو رائے دی تھی ایک پروفیشنل کی حیثیت سے آپ نے اپنا فرض نبھایالیکن لوگ ناراض ہوئے۔اب لوگوں کا نظریہ کچھ بدلا یا نہیں جب کہ اب فیصلہ آچکا ہے؟

جواب:یس یس۔ مسلمان پہلے بھی بہت سارے لوگ،اس زمانے میں بھی تھے۔ کیونکہ میں جب علی گڑھ میں تھا کچھ مسلمان نہ چھوڑنے کے لئے تیار تھے توبہت سارے چھوڑنے کے لئے بھی تیار تھے۔لیکن ان کو عرفان حبیب کی کمیونسٹ تاریخ داں لابی نے بھڑکایا ہے۔ان لوگوں نے کہا کہ چھوڑیئے گا مت، پروفیسر بی بی لال نے کھدائی کرکے دیکھا ان کو کچھ نہیں ملا۔آپ تھوڑا سابھی کمپرومائز مت کیجئے گا۔ کمپرومائز کریں گے توہم تو بہت سارے کلیم کریں گے ۔

اس لئے مسلمانوں کوعرفان حبیب اینڈ گروپ غلط راستے پر لے گیا اور مسلمانوں کو بہت بڑی قیمت چکانی پڑی۔ ورنہ وہاں کیا ہے۔ چار فیصد مسلم آبادی ہے۔اس دوران عرفان حبیب ارو ندیم رضوی نے ایک اور مہم چلائی اور میں نےاس کھدائی میں حصہ نہیں لیا تھا، یہ بھی اخبار میں دیدیا۔ ٹائمس آف انڈیا میں دیدیا۔ پروفیسر بی بی لال اس وقت ہندوستان میں نہیں تھے، امریکہ میں تھے۔ پھر ای میل بھیجنا پڑا پھر وہ بھی پبلش کرنا پڑا۔ یہ سب جھوٹ بولنے کی عادت بن گئی ہے۔ تو اسی وجہ سے مسلمانوں کو اس زمانے میں گمراہ کیا۔ مسلمانوں کو مکہ اور مدینہ جس طرح اہمیت کا حامل ہے۔

عام ہندوکے کے لئے ہندوستان اہم ہے۔ مگر آج بھی ہندوستان ایک سیکولر ملک ہے اس کے باوجود کے یہ ہندواکثریتی ملک ہے۔مسلم اکثریتی ملک ہوتا تو یہ کبھی بھی سیکولرملک نہیں ہوتا۔ یہ ہم لوگوں کا،یہ حقیقت ہے۔لیکن عرفان حبیب اینڈ گروہ نے گمراہ کیاہے۔ مسلمان پہلے بھی سمجھتے تھے، بعد میں بھی سمجھ گئے۔ بہت سارے لوگ سمجھ گئے کہ غلط ہواہے۔

سوال:نظریہ بدلا کہ نہیں بدلا؟

جواب: کافی بدل گئے ہیں۔ہندوکمیونٹی کے لوگ جو کافی مشتعل ہوجاتے تھے اب نہیں ہورہے ہیں اور وہ مشتعل اس لئے ہوتے تھے کہ وہ مسلمانوں پر اپنے ردعمل کا اظہار کرتے تھے۔ مسلمان اپنے رویے کو تھوڑابدلیںگے تو ہندو بھی بدل جاتے ہیں۔ ہندو کو بدلنا بہت زیادہ مشکل نہیں ہے۔ اور اسی کے ساتھ میں یہ بھی کہونگا کہ ہم جو یہ سمجھتے ہیں کہ صرف ہم ہی صحیح ہیں۔ باقی سارے لوگ غلط ہیں، صرف ہم ہی جنت میں جائیں گے۔اور کتنے بھی اچھے ہوں جنت میں نہیں جائیں گئے، دوزخ میں جائیں گے۔

یہ سب چیزیں آپ کو ماڈرن زمانے میں بدلنا ہی ہونگی۔ اس کے حساب سے جو نصاب ہے مدرسے کا،میں خود مدرسےکا ہوں اس لئے بہت آسانی سے ان چیزوں کو پڑھا ہے۔ حدیث پڑھئ ہے تو میں جانتا ہوں۔صرف مسلمان جنت میں جائینگے اور باقی لوگ دوزخ میں جائیں گے یہ سوچ مسلمانوں کو بدلنی پڑیگی۔ ایک نیا ہندوستان بنانے کے لئے ہندو،مسلم عیسائی سب مل کر آگے بڑھیں۔

سوال: چلتے چلتے یہ ایک آخری سوال ہے۔ آج کل آپ کیا کر رہے ہیں؟

جواب:اپنی جو کتابیں ہیں، ان پر ابھی کافی کتاب کر رہا ہوں۔کئی کتابوں پر لگاہواہوں۔ اس کام کو پہلے ختم کرنا ہے۔پھر باقی چیزوں پر دھیان دینا ہے۔ اس کے علاوہ کچھ آرگنائزیشنوں پر توجہ دی ہوئی ہے۔