اکیسویں صدی میں سر سید تحریک کے تقاضے

Story by  ایم فریدی | Posted by  Shah Imran Hasan | Date 15-10-2021
اکیسویں صدی میں سر سید تحریک کے تقاضے
اکیسویں صدی میں سر سید تحریک کے تقاضے

 

 

awazurdu

ڈاکٹر سید ظفر محمود،نئی دہلی

حالانکہ آج کل ہم ملک کی سیاسی اُفق پر بے قرار ہیں پھر بھی ہمیں اس ایمانی مفروضہ پر یقین محکم رکھنا ہے کہ ’ہر تنگی کے ساتھ آسائش ہے‘۔سر سید کے یوم پیدائش پرملک و دنیا میں ڈنر کھانا عام ہے‘پر جوش محفلیں آراستہ کی جاتی ہیں‘ مکالمے منعقد کئے جاتے ہیں‘ اخبارات و رسائل میں مضامین شائع ہوتے ہیں‘ وغیرہ۔ ساتھ ہی تجزیہ یہ کرنا ہے کہ ہم نے اس مرد درویش کا کتنا قرض اداکیا ہے؟

ہم نے کتنی ذاتی تگ و دو کی ہے ملت کی فلاح و بہبود کیلئے؟ قرآن کریم کے مطابق انسانیت کی تخلیق اس لئے کی گئی ہے کہ پروردگار فیصلہ کرے کہ ہم میں سے کون لوگ زیادہ انہماک سے اس کی مخلوق کی زندگی بہتر بنانے کی جد و جہد میں لگے رہے ہیں۔ ہمارا پیدا کرنے والا خودہمیشہ کام میں مصروف رہتا ہے اور اس نے اپنی روح ہمارے اندر پھونکی ہے‘ لہٰذا ہمیں اس کے اوصاف میں سے اپنا حصہ لے لینے کی کاوش میں لگے رہنا چاہئے۔

یہ کائینات ابھی ناتمام ہے اور ہر جانب سے کن فیکون کا ورد ہمارے کانوں میں گونج رہا ہے۔ کوئی کار خیر کرنے کے لئے ہمارا سکندر ہونا ضروری نہیں‘ بلکہ ہمارے سینہ میں تمام سامان موجود ہے اور ہم اپنا آئینہ خود بنا سکتے ہیں۔ لہٰذاہمیں اپنے من میں ڈوب کر زندگی کا سراغ تلاش کرنا ہے۔

اگر ہم محفل میں شریک ہی نہیں ہوں گے تو قصور تو ہمارا ہی ہوا نا۔ ہماری جنت ہمارے سوز جگر میں پنہا ہے۔ ہماری ہستی دانا و توانا ہے اور ہم چمنستان کی ہئیت ضرور بدلیں گے۔کچھ اہل وطن غلط فہمی میں ہیں کہ ہماری کشتی بھنور میں ہے ایسا ہرگز نہیں ہے‘ وہ موجیں تو در اصل ہمارے عزم کا طواف کر رہی ہیں۔اس ظلمتِ شب میں ہم اپنے درماندہ کارواں کو لے کے ضرورنکلیں گے۔اب صرف چشم کو نم کرنے اور جان کو شوریدہ کرنے سے کام نہیں چلے گا اور ملت سے ہمارا پوشیدہ عشق اب کافی نہیں ہے۔یاد کرنے کی ضرورت ہے کہ سر سید نے ایک ’ہند برطانیہ تنظیم‘بھی قائم کی تھی۔

انھیں برطانیائی سامراج بالکل پسند نہیں تھا لیکن انھیں اندازہ تھا کہ مستقبل قریب میں ملت اسلامیہ ہند اس کو ہٹا کے دوسری حکومت لے آنے کی اہلیت نہیں رکھتی تھی‘ انھوں نے صلح حدیبیہ کی مصلحت کے ہر زاویہ پر غور کیا اور اس کی حکمت عملی کے قائل ہو گئے۔اسی لئے انھوں نے افراد ملت کو ساتھ لیا اور فرنگیوں پر اپنے غصہ کو بالائے طاق رکھ کر ان کی طرف مخالفانہ رویہ کو ملی مفاد کی خاطر جنگ بندی میں تبدیل کرنے کی پالسی بنا لی۔ ان کی اس پالیسی پر عمل کرنا ہو گا صحیح معنوں میں سر سید کو ہمارا خراج عقیدت۔

سر سید احمد خاں ایسے زمانہ میں پیدا ہوے تھے جب مملکت برطانیہ نے ایسٹ انڈیا کمپنی کی مدد سے علاقائی سازش و سرکشی کے ذریعہ مغلوں کی وسعت و طاقت کو محدود کر دیا تھا۔موقع کی نزاکت کے لحاظ سے انھوں نے خود کمپنی کے کالج میں تعلیم حاصل کی اور عدل و قانون میں ڈگری حاصل کی۔ جدید سائنسی تعلیم کو فروغ دینے کے لئے تعلیمی ادارے قائم کرنے کے ساتھ مسلم تاجروں اور کارو باریوں کو سر سید نے منظم بھی کیا۔

انھوں نے اُس وقت مسلم سماج میں رائج جہالت‘غیر عقلی اعتقاد اور ناکارہ رواجوں کی مخالفت کی۔ 1857کی بغاوت کے بعد انھوں نے دلیری سے ایک کتابچہ لکھا تھا بہ عنوان ’اسباب بغاوت ہند‘جس میں انھوں نے انگریزوں کی پالسی کی تنقید کی اور انھیں بغاوت کے لئے ذمہ دار ٹھہرایا‘ انھوں نے کمپنی پر زور دیا کہ انتظامیہ میں مسلمانوں کو شامل کیا جائے۔

حالانکہ ان کے دوستوں نے رائے دی کہ اس کتابچہ کے سب نسخے جلا دئے جائیں ورنہ سر سید کو ذاتی نقصان پہنچ سکتا ہے لیکن سر سید نے کہا کہ اگر ایسا ہوتا ہے تو بھی مسلمانوں کو اس کا فائدہ پہنچے گا اور انھوں نے اللہ کے علاوہ کسی اور سے خوف نہ کرنے کا اعلان کرتے ہوے اس کتابچہ کے 500 نسخے برطانوی حکومت و پارلیمنٹ کو بھیج دئے۔وہاں اس کا انگریزی میں ترجمہ کروایا گیا اور اس پر بحث ہوی اور پھر معمولی مخالفت کے بعدگورنر جنرل نے اس کتابچہ کو ایک مخلصانہ و دوستانہ رپورٹ کے طور پر تسلیم کر لیااور اس کی بنیاد پر برطانوی پالسی میں تبدیلیاں بھی کی گئیں۔

سرسید نے انگلستان کی رائل سوسائٹی اور رائل ایشیاٹک سوسائٹی کی طرز پر علی گڑھ میں سائنٹفک سوسائٹی قائم کی۔اس کے ذریعہ سالانہ کانفرنس کا انعقاد ہوتا تھا‘ تعلیمی اداروں کے لئے فنڈدیا جاتا تھا اور سائنس کے مضامین کا ایک جریدہ شائع کیا جاتا تھا۔ انھوں نے ’تہذیب الاخلاق‘ کے عنوان سے رسالہ شائع کرنا شروع کیا‘حضور اقد س ؐ کی حیات طیبہ پر مضامین لکھے اوراسلامی اصولوں کا سائنس و ترقی یافتہ سیاسی خیالات سے موازنہ کیا۔

سر سید نے 1887 میں محمڈن سول سروسز فنڈ ایسوسیشن قائم کی جس کے 500 رکن تھے اور ہر شخص سالانہ 2 روپئے دیتا تھا جو رقم کافی ہوتی تھی 15 نوجوانوں کو ہر سال لندن بھیجنے کے لئے جہاں وہ سول سروس کے امتحان میں شریک ہوتے تھے۔انھوں نے تجویز دی کہ مسلمان آپس میں گفت و شنید اور پیغام رسائی کے لئے اردو زبان کا استعمال کریں۔1840-41 میں شائع شدہ ان کی کتاب ’آثار الصنادید‘ میں سر سید نے دہلی میں مقیم قدیم یادگاری عمارتوں کی تفصیل بیان کی۔

علی گڑھ میں محمڈن اینگلو اورینٹل اسکول قائم کرنے سے پہلے مرادآباد اور غازی پور میں بھی تعلیمی ادارے قائم کئے۔ بعد ازاں علی گڑھ کا ادارہ 1920 میں برطانوی پارلیمنٹ کے ایک خصوصی ایکٹ کے تحت مسلم یونیورسٹی بن گیا۔ سر سید کی اس کارکردگی سے ہمیں سبق ملتا ہے کہ ہم میں سے جس جس کے پاس انفرادی یا تنظیمی سطح پر زمین یا جائداد ضرورت سے زائد ہو انھیں اس کا کچھ حصہ رجسٹرڈ ٹرسٹ کے نام منتقل کر کے وہاں تعلیمی ادارے قائم کر دینے چاہئیں۔ملک میں جگہ جگہ مسلم تعلیمی کانفرنس کا انعقاد ہونا چاہئے۔

مسلم ووٹ قومی ووٹ کے ساتویں حصہ سے زیادہ ہے‘ اس کا انتخابی میٹرکس (Electoral matrix)میں حاشیہ پر رہ جانا تشویش کا باعث ہے۔ یاد رکھئے کہ ہم بصیرت افروزلوگ ہیں ہمیں اپنی فی الوقت انا کو 100-200 برس بعد کے قومی ملی مفاد کے ترازو میں بھی تولنا ہو گا‘ اسی کے مطابق ہمیں عمل پیرا رہنا ہے۔

مارچ 2020سے پوری دنیا اور ہمارا ملک عزیز کرونا مہاماری کے مختلف القسم ا ثرات سے دو چار ہے‘ لیکن انھی حالات کے دوران زکواۃ فاؤنڈیشن آف انڈیا نے صوبائی سرکاری و عدالتی ملازمتوں میں شمولیت کے لئے منعقد ہونے والے مقابلہ جاتی امتحانات کی تیاری کے لئے ملت کے نوجوانوں تک پہونچ کر انھیں تلقین و ترغیب کے ذریعہ تیار کر لیا ہے اور اس کام کے لئے لکھنو میں زیڈ ایف آئی کے سر سید کوچنگ اینڈ گائڈنس سنٹر کی شاخ قائم کر دی گئی ہے جہاں آن لائن کوچنگ الحمدللہ زور شور سے جاری ہے۔

اسی دوران زیڈ ایف آئی نے اپنی جوڈیشل اکیڈمی بھی قائم کر دی ہے اور اس کے پہلے بیچ کی کوچنگ آخری مراحل میں ہے۔ زیڈ ایف آئی کے سول سروسز پروگرام سے تو قارئین واقف ہی ہیں‘ ہاں اب ہم اس کی شہرت سے گریز کر تے ہیں تا کہ حاسدین ملت کے حوصلے پست رہیں۔ہمارا یہ دلکش سفر 2007سے شروع ہوا تھا اور الحمدللہ مستقل پروان چڑھتا جارہا ہے۔ سول سروسز میں شمولیت کے ذریعہ ملت کو با اختیار بنانے کا یہ پروجکٹ تو لگتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قبول فرما لیا ہے‘ اب ہمیں اگلے ملی پروجکٹ کی طرف توجہ دینی ہے۔ وہ ہے ملک کے لاکھوں میونیسیپل و پنچایت وارڈوں کی دس سالہ غیر معتبرحد بندی جس کے ذریعہ ملی حقوق کی مستقل جڑ کاٹی جارہی ہے جبکہ ملت اس شرارت سے نابلد ہے۔

پوربی اتر پردیش کے ضلع بہرائچ میں شہر سے کچھ دور ی پر1954 سے مسلم یونیورسٹی کو جناب سنت رام چودھری سے تحفہ میں ملی ہوی زمین ابھی تک غیر مستعمل ہے۔ بھلا ہو بہرائچ کی ہیومن ولفیئر سوسائٹی کے جنرل سکریٹری ڈاکٹر وجود خاں کا کہ انھوں نے تگ و دو کر کے ضروری کاغذی کاروائی کو کسی حد تک آگے بڑھایا۔انھوں نے مسلم یونیورسٹی کے انتظامیہ کی منظوری کے تحت آل انڈیا آیوش ٹیچرس ایسوسیشن کے صدر ڈاکٹر عبد اللہ خاں اور علامہ اقبال ایجوکیشنل سوسائٹی کے ممبر ڈاکٹر داور صدیقی کے ساتھ مل کے اس زمین پر مسلم یونیورسٹی کا سائن بورڈ لگا دیا‘ اس موقع پر گرام پردھان کامتا پرساد سونکر و دیگر اشخاص موجود تھے۔

راقم الحروف نے یونیورسٹی انتظامیہ سے گفتگو کر کے بہرائچ کے لئے ایک مقامی کمیٹی تشکیل کروا دی ہے‘ جس میں یونیورسٹی کے رجسٹرار و ٹریژراراس کی نمائندگی کرتے ہیں۔ علیگ خواتین و حضرات و دیگر بہی خواہان ملت کا فریضہ ہے کہ اس کار خیر میں آگے بڑھ کے حصہ لیں۔بہرائچ شہر میں یونیورسٹی کے توسیعی دفتر کے لئے فوری طور پر زکوٰۃ فاؤنڈیشن آف انڈیانے وہاں اپنے احاطہ میں سہولت مہیا کر دی ہے۔ بقول علامہ اقبال:

خلیل اللہ کے دریا میں ہو گے پھر گہر پیدا