مرشدومرید اورگروششیاروایت

Story by  غوث سیوانی | Posted by  [email protected] | 2 Years ago
مرشدومرید اورگروششیاروایت
مرشدومرید اورگروششیاروایت

 

 

غوث سیوانی،نئی دہلی

حضرت جنید بغدادی رحمۃ اللہ علیہ ایک مشہورصوفی گزرے ہیں۔ان کے مریدوں کی تعداد بہت زیادہ تھی۔ ایک دن وہ اپنےایک مرید کے ساتھ جنگل سے گزر رہے تھے۔ موسم گرم تھا،شدیدلو چل رہی تھی۔مرید کی زبان سے بے اختیارنکلا کہ ’’اف بہت گرمی ہے،ناقابل برداشت ہے۔‘‘

یہ بات سن کرجنیدبغدادی ناراض ہوگئے اور کہنے لگے کہ تو ہمارے ساتھ رہنے کے لائق نہیں ہے،چلا جا۔ تونے اتنے دنوں میں بس شکایت کرنا سیکھا۔لوگوں نے اس بات کی وضاحت چاہی تو آپ نے فرمایا کہ انسان کو اللہ کی مرضی میں راضی رہنا چاہئے۔ گرمی،سردی، برسات، سب اللہ کی مرضی کے تابع ہیں۔ سب کچھ اس کی مرضی سے ہی ہوتا ہے،ایسے میں موسم کی شکایت کرنے کا مطلب ہے، اللہ کی مرضی میں راضی نہ ہونا۔

تصوف میں پیری ومریدی کا سلسلہ قدیم دور سے چلا آرہا ہے۔ یہاں پیریا مرشد کی حیثیت ایک ٹیچر کی ہوتی ہے جب کہ مریدشاگرد ہوتا ہے۔ پیر اپنی زبان اور عمل کے ذریعے مرید کی تربیت کرتاہے۔

حضرت مجدد الف ثانی شیخ احمدسرہندی علیہ الرحمۃ نے اپنے ایک مکتوب میں لکھا ہے کہ: ’’شیخ کامل کی تلاش کرنی چاہیے اور اپنے باطنی امراض کا علاج ان سے کرانا چاہیے‘‘(مکتوب ۲۳۰ دفتر اول)

انھوں نے ایک دوسرے خط میں اس کا فائدہ بتاتے ہوئے لکھا ہے: ’’وہ لوگ جو اس امت کے اولیاء کی صحبت میں زندگانی گزارتے ہیں وہ بھی ان رذائل سے پاک ہوجاتے ہیں (دفتر سوم مکتوب ۲۴)

مطلب یہ ہے کہ مرشد خود دنیاکی برائیوں سے پاک ہوچکا ہوتا ہے اور اخلاقی طور پر اس کا مرتبہ بلند ہوچکا ہوتا ہے۔ ایسے میں وہ دوسروں کی رہنمائی کرسکتا ہے۔

جس طرح تصوف میں پیری مریدی کی روایت چلتی آرہی ہے،اسی طرح بھکتی میں بھی ’’گرو۔ششیا‘‘پرنپراہے۔ یہ پرنپرا نئی نسلوں کے اندر روحانی حکمت پھیلانے کا ایک اہم ذریعہ رہی ہے۔

ہندوستانی ثقافت میں، گرو شیشیا روایت کے تحت، گرو اپنے ششیا کو نظم وضبط اور علم وحکمت سکھاتا تھا۔ بعد میں وہی شاگرد، گرو کے روپ میں دوسروں کو وہی سب کچھ سکھاتا تھا۔

سناتن دھرم کے تمام دھاروں میں گرو۔ششیا کی روایت پائی جاتی ہے۔ گرو۔ ششیا کی یہ روایت علم کے کسی بھی شعبے میں ہو سکتی ہے، جیسے روحانیت، موسیقی، آرٹ، وید، واستو وغیرہ۔ ہندوستانی ثقافت میں گرو کی بہت اہمیت ہے۔

کہیں گرو کو 'برہما-وشنو-مہیش' کہا جاتا ہے اور کہیں 'گووند'۔ لفظ 'سکھ' سنسکرت کے لفظ 'ششیا' سے ماخوذ ہے۔

آج بھی آشرموں میں ’گرو۔ششیا‘ روایت کو برقرار رکھا جا رہا ہے۔ ہندوستانی ثقافت میں گرو کا انتہائی احترام کا مقام ہے۔

گرو کا کردار معاشرے کو اصلاح کی طرف لے جانے والے رہنما جیسا ہے اور ساتھ ہی انقلاب کی سمت بھی بتاتا ہے۔ یہ مبالغہ ہوسکتا ہے مگر حقیقت ہے کہ ہندوستانی ثقافت میں گرو کا مقام بھگوان سے بھی اوپر سمجھا جاتا ہے۔

"گرور برہما گرو وشنو گرودیو مہیشور: .

گرو: ساکشت پرم برہم تسمئی سری گرو نمہ"

گرو اور شاگرد کے درمیان نہ صرف زبانی علم کا تبادلہ ہوتاتھا بلکہ روحانی علوم کا بھی تبادلہ ہوتا تھا گرو نے اپنے شاگرد کے سرپرست کے طور پر بھی کام کرتاتھا۔

اس رشتے کی اہمیت کا ذکر جہاں گیتا میں، بھگوان کرشن نے کیاہے،وہیں چانکیہ نے بھی اس کی اہمیت کے سبب اس کے تقدس کو بیان کیاہے۔

گرو شاگرد روایت کی بنیاد دنیاوی علم سے شروع ہوتی ہے، لیکن اس کا عروج روحانی ابدی خوشی کا حصول ہے، جسے خدا کا ادراک اور نجات بھی کہا جاتا ہے۔

یہ انسانی زندگی کا آخری اور اعلیٰ ترین مقصد ہونا چاہیے جو خوش قسمتی سے ہی حاصل ہوسکتا ہے۔یہی سبب ہے کہ تصوف سے بھکتی تک،اس کی اہمیت ہے۔