میناکماری:بالی وڈہی نہیں شاعری کی بھی ٹریجڈی کوئن تھیں

Story by  غوث سیوانی | Posted by  [email protected] | Date 27-03-2022
میناکماری:بالی وڈہی نہیں شاعری کی بھی ٹریجڈی کوئن تھیں
میناکماری:بالی وڈہی نہیں شاعری کی بھی ٹریجڈی کوئن تھیں

 

 

۔31مارچ میناکماری کے یوم وفات پرخصوصی پیشکش

غوث سیوانی،نئی دہلی

زندگی کیا اسی کو کہتے ہیں

جسم تنہا ہے اور جاں تنہا

یہ شعراداکارہ میناکماری کا ہے۔اس ایک شعر میں میناکماری کی پوری زندگی کی داستان بھی ہے۔وہ یکم اگست 1933کو پیداہوئیں تواپنےباپ کو بالکل پسند نہیں آئیں اور اس نے ایک یتیم خانے میں لے جاکر چھوڑ دیا۔انھوں نے فلموں میں قدم رکھا تو کامیابی نے قدم چومے مگر زندگی کبھی خوشگوار نہیں ملی۔

awaz

قدم قدم پر غم وآلام نے دامن کو پکڑے رکھا۔وہ فلم سازکمال امروہوی کی تیسری بیوی بنیں مگر یہاں بھی ان کے دامن میں غموں کے کانٹے ہی آئے۔ شاید یہی سبب کہ اداس عورت کا کردار انھوں نے زیادہ اثردار طریقے سے نبھایااور انھیں ’’ٹریجڈی کوئن‘‘کہا جانے لگا۔ انھوں نے شاعری بھی کی مگر ان کی شاعری میں بھی یہی اداسی اور محرومی کے سایے بکھرے نظرآتے ہیں۔

اداسیوں نے مری آتما کو گھیرا ہے

رو پہلی چاندنی ہے اور گھپ اندھیرا ہے

نہ جانے کیا سوچ کر انھوں نےکمال امروہوی سے شادی کی تھی،جو پہلے ہی سے دو شادیاں کرچکے تھے اور کئی بچوں کے باپ تھے۔ میناکماری کی زندگی میں پہلے ہی کیا کم غم تھے،اس میں شادی کے بعد نئے غم بھی شامل ہوگئے اور شادی کا انجام بھی طلاق پر ہوا۔

انھوں نے کمال امروہوی کے ڈریم پروجیکٹ’پاکیزہ‘ میں کام کیا تھا۔فلم کی تکمیل میں رکاوٹیں آئیں اور تقریباً سولہ سال کی مدت میں بن کر تیار ہوئی۔

فلم کی تکمیل میں دونوں کے رشتے بھی بڑی رکاوٹ بنے تھے۔کہاجاتا ہے کہ میناکماری نے شرط رکھی تھی کہ کمال امروہوی انھیں طلاق دیں تب ہی وہ فلم مکمل کرائیں گی۔چنانچہ کئی سال بعد کمال امروہوی اس کے لئے تیار ہوئے۔

انھوں نے میناکماری کو خط لکھا کہ ’آپ نے شرط رکھی تھی کہ جب تک میں تمہیں طلاق نہ دے دوں تم فلم پاکیزہ مکمل نہیں کرو گی، میں تمہیں رشتۂ ازدواج سے آزاد کر دوں گا، اس کے بعد اگر آپ اپنی پاکیزہ مکمل کرنے کے لیے رضامند ہوں تو مجھے بے حد خوشی ہو گی، پاکیزہ ایک ڈوبتی ہوئی کشتی ہے، جو تمہاری نگہبانی میں پار لگ جائے گی۔‘

بہرحال کمال امروہوی اور میناکماری کے بیچ سمجھوتے کے بعد فلم کی شوٹنگ دوبارہ شروع ہوئی اورچار فروری 1972ء کو فلم ریلیز ہوئی۔ فلم زبردست تھی۔ابتدامیں شائقین کم آئے مگر دھیرے دھیرے ناظرین بڑھنے لگے اور سنیماگھروں میں لوگوں کا سمندرامنڈنے لگا۔

awaz

میناکماری:مختلف انداز

حالانکہ اسی دوران31 مارچ کو مینا کماری کی زندگی کا چراغ گُل ہو گیا۔ غم وآلام سے چھٹکارے کے لئے انھوں نے شراب کا سہارالیا تھا مگر اس کم بخت نے زندگی سے ہی چھٹکارہ دلادیا۔

راہ دیکھا کرے گا صدیوں تک

چھوڑ جائیں گے یہ جہاں تنہا

میناکماری کو مطالعے کا شوق تھا۔ خاص طور پر وہ اساتذہ شاعروں کو پڑھتی تھیں اور مرزا غالب، ان کے پسندیدہ شاعروں میں تھے۔ وہ زبان کا اعلیٰ ذوق رکھتی تھیں اور شستہ زبان بولتی تھیں۔

اس دوران ان کی ملاقات اسکرپٹ رائٹر ونغمہ نگارگلزار سے ہوئی اور پھر ایسی دوستی ہوئی کہ تاحیات خوشگوار تعلقات رہے۔میناکماری ان کے ساتھ ادبی گفتگو کے ساتھ ساتھ ذاتی مسائل پر بھی بات چیت کرتی تھیں۔

ان کی دوستی اتنی گہری تھی کہ انتقال سے پہلے میناکماری نے اپنی تخلیقات ان کے حوالے کردی تھیں۔ میناکماری کا اصل نام مہ جبین تھاجب کہ ان کا تخلص ’ناز‘ تھا۔ انھوں نے اپنی وصیت میں اپنی ادبی تخلیقات گلزار کے حوالے کرنے کی بات کہی تھی اور گلزار نے میناکماری کی نظموں اور غزلوں کو کتابی شکل میں ترتیب دے کر’’تنہاچاند‘‘کے ٹائٹل کے ساتھ ادارہ شمع کی جانب سے شائع کرایا۔

مجموعے کا آغاز اس شعر کے ساتھ ہوتاہے.

چاندتنہا ہے، آسماں تنہا

دل ملاہے کہاں کہاں تنہا

کتاب کے آغازمیں میناکماری کی ایک تصویرہے جس کے نیچے تحریر ہے

’’خون دل سے لکھی ہوئی نظمیں،آہوں اورسسکیوں سے ترتیب دی ہوئی غزلیں، کاجل بھرے آنسووں کی روشنائی سے بنی تصویروں کے ساتھ شائع کی گئی ہیں۔‘‘

کتاب کی ورق گردانی کے بعد یہ نوٹ باالکل درست لگتا ہے۔ ایسا لگتا ہے گویا اشعار نہیں ٹوٹے دل کی کرچیاں ہیں جنھیں خون جگر سے کاغذ پر اتار دیا گیا ہے۔

میناکماری نازؔ ایک فطری شاعرہ تھیں اور مافی الضمیرکوبخوبی شعری پیکر میں ڈھالتی تھیں۔حالانکہ انھوں نے زندگی کے عام مسائل کو شاعری کا موضوع نہیں بنایا بلکہ خود اپنی زندگی کے دکھ درد تک ہی اسے محدود رکھا۔ذیل کے اشعار ملاحظہ کریں جن میں کرب ہی کرب ہے

چاند تنہا ہے آسماں تنہا

دل ملا ہے کہاں کہاں تنہا

بجھ گئی آس چھپ گیا تارہ

تھرتھراتا رہا دھواں تنہا

زندگی کیا اسی کو کہتے ہیں

جسم تنہا ہے اور جاں تنہا

جلتی بجھتی سی روشنی کے پرے

سمٹا سمٹا سا اک مکاں تنہا

آبلہ پا کوئی اس دشت میں آیا ہوگا

ورنہ آندھی میں دیا کس نے جلایا ہوگا

مل گیا ہوگا اگر کوئی سنہری پتھر

اپنا ٹوٹا ہوا دل یاد تو آیا ہوگا

اداسیوں نے مری آتما کو گھیرا ہے

رو پہلی چاندنی ہے اور گھپ اندھیرا ہے

افق کے پار جو دیکھی ہے روشنی تم نے

وہ روشنی ہے خدا جانے یا اندھیرا ہے