مطیب الرحمان کاخاندان500 سال سے کررہا ہے شیومندر کی دیکھ بھال

Story by  غوث سیوانی | Posted by  [email protected] | Date 02-11-2021
مطیع الرحمان کاخاندان500 سال سے کررہا ہے شیومندر کی دیکھ بھال
مطیع الرحمان کاخاندان500 سال سے کررہا ہے شیومندر کی دیکھ بھال

 

 

عارف الاسلام/ گوہاٹی

آسام کے 17ویں صدی کے سب سے بڑے صوفی اذان فقیر کے تحریرکردہ ایک حمدیہ گیت میں کہاگیا ہے کہ ’’اللہ کا ہے فرمان،ہندواورمسلمان،ان میں نہیں ہے فرق کا کچھ گمان‘‘۔آسام میں آج بھی بڑی تعدادمیں ایسے لوگ مل جائیں گے جواذان فقیرسے عقیدت رکھتے ہیں اور انھیں میں مطیب الرحمان بھی شامل ہیں۔

آسام کے دارالحکومت گوہاٹی کے شمالی علاقے میں رنگ محل بستی کے رہنے والے مطیب الرحمن ایک ایسے شخص ہیں جو اذان فقیر کے ہم آہنگی کے پیغام کوپھیلانے میں زندگی گزاردی۔

مطیب الرحمان گوہاٹی کے قریب برہم پترا کے شمالی کنارے پر ایک شیو مندر کی دیکھ بھال کر رہے ہیں۔ یہ کام انھیں اپنے آباؤ اجداد سے وراثت میں ملا ہے۔ ان کا خاندان گزشتہ 500 سالوں سے مندر کی دیکھ بھال کر رہا ہے۔ مندر کو برہان شاہ تھان کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔

کہاجاتاہے کہ یہ مندر تقریباً پانچ صدی پہلے اس وقت وجود میں آیا تھاجب برہان شاہ نامی ایک بزرگ شخص نے مطیب الرحمان کے آباؤ اجداد سے قیام اور عبادت کی جگہ مانگی۔ اُنہوں نے اُس کے قیام کاجس مقام پر انتظام کیا وہاں آج مندر کھڑا ہے۔

برہان شاہ کے جانے کے بعد رحمن کے خاندان نے اس مقام کی دیکھ بھال شروع کی اور آج تک یہ کام جاری رکھے ہوئے ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ تھان میں ایک شیو لِنگ بھی نصب کیا گیا اور تب سے یہ شیو مندر کے نام سے جانا جانے لگا۔ مطیب الرحمان مندر کی باقاعدہ دیکھ بھال کرتے ہیں۔ نیز آس پاس کے لوگ بھی وقتاً فوقتاً مندر اور اس کے اطراف کی صفائی کو برقرار رکھنے کے لیے مدد کا ہاتھ بڑھاتے ہیں۔

مقامی ہندو اور مسلمان دونوں وقتاً فوقتاً مندرمیں آتے ہیں۔ شیوارتری کے موقع پر لوگ مندر میں پوجا کرتے ہیں۔ مطیب الرحمان، مندر میں اگربتی اور مٹی کے چراغ جلاتے ہیں اور ہر روز اسلامی طریقے سے دعا کرتے ہیں۔

جب آوازدی وائس نے پوچھا کہ اسلام بت پرستی یا اس جیسی کسی بھی سرگرمی سے منع کرتا ہے، تو مطیب الرحمان نے کہا کہ "اللہ اور بھگوان ایک ہے، صرف اس سے پرارتھنا کرنے کا طریقہ مختلف ہے۔ کوئی بھی اسے کسی بھی ذریعے سے تلاش کر سکتا ہے۔"

تقریباً 50 سال پہلے تک، مندر میں پوجا کرنے والے عقیدت مندوں کا ماننا تھا کہ مندر کے احاطے کے قریب ایک چٹان پر چڑھاوا خود ہی دھواں خارج کرتا تھا۔مطیب الرحمان کا خیال ہے کہ لوگوں کے درمیان بڑھتے ہوئے امتیازی سلوک، تشدد، نفرت اور طبقاتی فرق کی وجہ سے یہ رک گیا ہے۔ تھان (شیو مندر) آسام میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور بھائی چارے کی علامت بن گیا ہے۔