نظام کی وراثت کا آخری ’واچ مین‘ لکشمن چوگانی

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 22-07-2022
نظام کی وراثت کا آخری ’واچ مین‘ لکشمن چوگانی
نظام کی وراثت کا آخری ’واچ مین‘ لکشمن چوگانی

 

 

رتنا چوترانی/حیدرآباد

وقت کا تصور بنی نوع انسان کے لیے بہت اہمیت کا حامل رہا ہے۔ پرانے زمانے میں لوگ وقت کی پیمائش مختلف طریقوں سے کیا کرتے تھے کچھ سورج کی حرکات سے اور کچھ مرغ کی بانگ پر انحصار کرتے تھے۔ سورج وقت کا سب سے اہم اشارہ تھا۔ وقت بتانے کے سب سے قدیم آلات میں ایک سورج گھڑی ہے۔

بعد میں مشینی گھڑیوں کا استعمال کیا گیا جو ٹاور کے بڑے ڈھانچے پر نصب کی گئی تھیں تاکہ لوگ وقت دیکھ سکیں یا دور دور تک گھنٹی سن سکیں۔ اس لیے کلاک ٹاور شہر کے اٹوٹ انگ بن گئے. یہ وہ ذریعہ تھا جس سے لوگوں کو وقت معلوم ہوا۔ تاہم جیسے جیسے وقت گزرتا گیا کلاک ٹاورز کی اہمیت کم ہوتی گئی لیکن ان ٹاورز کی وراثتی قدر برقرار ہے اور ان میں سے بہت سے کلاک ٹاور شہروں اور قصبوں میں نمایاں نشانیاں بن چکے ہیں۔

awaz

حیدرآباد میں بھی بہت سے کلاک ٹاورز ہیں جن میں سکندرآباد کا مشہور کلاک ٹاور یا مشہور محبوب چوک جو حیدرآباد کے تعمیراتی ورثے کا ایک اہم حصہ ہے۔ یہ ٹاور پانچ منزلہ آرکیٹیکچرل کلاک ٹاور ہے جسے 1892 میں حیدرآباد کے وزیر اعظم اسمان جاہ بہادر نے تعمیر کیا تھا اور اس کے اطراف میں چار بڑی گھڑیاں ہیں جو وقت کو کسی بھی سمت سے دیکھنے کے قابل تھیں۔

پانچویں، چھٹے اور ساتویں نظام کے دور میں کلاک ٹاورز یا "گھڑی چوک" ایک اہم شہری عنصر تھے۔ وہ برطانوی اثر و رسوخ کی عکاسی کرتے تھے اور لوگوں کو وقت پڑھنے میں مدد کرنے کے لیے ڈیزائن کیے گئے تھے.

بیشتر لوگ ان دنوں گھڑی نہیں خرید سکتے تھے. ان گھڑیوں نے شہر کے تعمیراتی عجوبے میں بھی اضافہ کیا۔ کچھ عرصے بعد ٹاورز میں سیٹ کی گئی یہ گھڑیاں ناکارہ ہو گئیں کیونکہ ان کی مرمت کرنے کے لیے زیادہ لوگ نہیں تھے کیونکہ میکانکی گھڑی سازی جرمن، سوئزر لینڈ ، برطانیہ اور فرانس میں ہوتی تھی۔

لیکن یہاں سکندرآباد میں حیدرآباد کے لکشمن چوگانی ، پروپرائٹر رمیش سوئس واچ گیلری کے ایک آئیکن تھے۔ جنہوں نے ہر بار تاریخ کا ایک ٹکڑا اکٹھا کیا جب انہوں نے قدیم مشینی گھڑی کو زندہ کیا یا میکینیکل گھڑی بنانے کے فن کو اپنایا اور اسے جدید دور میں متعلق رکھنے کے لئے ایک جدید موڑ دیا۔

awaz

سکندرآباد کا کلاک ٹاور

گلاب رائے چوگانی اور ان کے بچوں نے تقسیم کے دوران حیدرآباد سندھ سے حیدرآباد دکن ہجرت کی اوردکان قائم کی۔

ایم جی روڈ کے قریب ایک کپڑے کی دکان بمبئی سلک اسٹور تھی۔ گلاب رائے چوگانی نے ایک آئس کریم فیکٹری کے قریب ٹیکسٹائل کی دکان کے سامنے ایک کاؤنٹر شروع کیا۔

ایک موقع پر نظام کے بیٹے شہزادہ معظم جاہ یہاں آئے جو اپنی نرسوں کے لیے گھڑیوں کی تلاش میں تھے۔ انھوں نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔ شہزادہ معظم جاہ نے گلاب رائے کو رمیش کہا اور اسی طرح ایم جی روڈ میں رمیش واچ کمپنی قائم ہوئی۔

لکشمن چوگانی ان گھڑیوں کی سروس میں دلچسپی رکھتے تھے اور اس لیے بنگلور میں ایچ ایم ٹی واچ میں تربیت حاصل کی اور بعد ازاں اس فن میں مہارت حاصل کرنے کے لیے سوئٹزرلینڈ گئے، جہاں جانا ان دنوں ایک نایاب بات تھی۔ وہ نہ صرف انھیں بنانے کا علم سیکھ کر واپس آئے بلکہ راڈو، رولیکس اور بہت سی دوسری درآمد شدہ گھڑیوں کی ایجنسیاں بھی لیں۔

لکشمن چوگانی ایک گھڑی ساز کے ساتھ ساتھ سوئس گھڑیوں کے لیے واحد آفیشل سروس ایجنٹ ہیں اور کلاک ٹاورز کے بارے میں جاننے والے چند لوگوں میں سے ایک ہیں۔ شہر کی چاروں طرف ان شاندار ٹاورز پر گھڑیوں کو بحال کرنے کے لیے حکومت نے بھی ان سے رابطہ کیا تھا۔

لکشمن اپنے خاندان کی پہلی نسل سے ہیں جس نے ایک سرکاری اسٹیبلشمنٹ سے لے کر ریلوے گرجا گھروں، مندروں، گولف کلبوں، دیواروں پر چلنے والی گھڑیوں، مینٹل پیسز، یا مرمت کے لیے اپنی ورکشاپ میں لے جانے کے اس غیر معمولی پیشہ کو اپنایا۔

معظم جاہی مارکیٹ کی گھڑی کی مرمت،ایک مشکل چیلنج تھا۔ یہ گھڑی مرمت کے لیے ایچ ایم ٹی کو دی گئی تھی لیکن ہر بار گھڑی کی سوئی گرنے کی وجہ سے یہ ناکارہ ہوتی چلی گئی۔ کمپنی والوں نے گھڑی کی بڑی سوئیاں کبوتروں پر گرنے کا الزام لگایا۔ آخر میں، لکشمن چوگانی نے اسے ایک چیلنج کے طور پر لیا، اور اب یہ گھڑی وقت دکھاتی ہے اور پچھلے کئی سالوں سے لندن کے بگ بین کی طرح گھنٹی بجاتی ہے اور رات کے وقت بھی چمکتی ہے۔

لکشمن چوگانی نے نہ صرف معظم جاہی ٹاور کی گھڑی بلکہ سکندرآباد کلاک ٹاور کو بھی بحال کیا ہے۔ سلطان بازار میں کلاک ٹاور جو کہ نظام کے زمانے کی سب سے بڑی اور خوبصورت عمارتوں اور شاندار مقامات میں سے ایک ہے۔

سلطان بازار میں واقع یہ کلاک ٹاور تاریخ میں نمایاں حیثیت رکھتا ہے۔ یہ وہ جگہ تھی جہاں 14 اگست 1947 کی آدھی رات کو ہندوستانی قومی جھنڈا پہلی بار لہرایا گیا تھا۔ ایک دلیر تالہ ساز نرسمہلو نے، نظام کی حکمرانی والی ریاست حیدرآباد میں حب الوطنی کے سبب پرچم لہرایا تھا۔

لکشمن چوگانی نے جیمز اسٹریٹ پولیس اسٹیشن میں کلاک ٹاور کو بحال کیا ہے جسے 1900 میں دیوان بہادر رام گوپال سیٹھ نے تحفے میں دیا تھا، مونڈا مارکیٹ کی گھڑی، اور بازار کے قریب واقع جیل خانہ کی گھڑیاں بھی بحال کیں۔ ایک 80 سال پرانا گھر شاید اس علاقے میں سب سے زیادہ آرائشی ہے۔

سکندرآباد ریلوے اسٹیشن پر ایک الیکٹرو مکینیکل گھڑی ہے جسے رمیش واچ کمپنی نے ریلوے اسٹیشن کے اوپر نصب کیا تھا اور کہا جاتا ہے کہ یہ شہر کی قدیم ترین گھڑیوں میں سے ایک ہے۔ یہ گھڑی ریلوے اسٹیشن پر ایک اہم پرکشش مقام کے طور پر کام کرتی تھی اور پچھلے سالوں سے سگنل اور ٹیلی کمیونیکیشن ونگ اس کی دیکھ بھال کرتی ہے۔

انھوں نے رامانتھا پور کے مشہور حیدرآباد پبلک اسکول میں گھڑیاں لگائی ہیں۔ ملک پیٹ کے ریس کورس میں، ایم سی ای ایم ای آرمی، نظام آباد میں ریلوے اسٹیشن، اورنگ آباد میں روٹری کلب، تاریخی کاچی گوڑا ریلوے اسٹیشن پر، فتح میدان کلب اور دوسری جگہوں پر گھڑیاں لگائی ہیں۔

لکشمن چوگانی "ماہراوقات "کے طور پر مشہور ہیں جو نہ صرف کلاک ٹاورز کی گھڑیوں کے ماہر ہیں بلکہ کلائی گھڑیاں بھی بناتےہیں۔

لکشمن چوگانی اس بات کی بے پناہ تعریف کرتے ہیں کہ ان گھڑیوں کے اتنے خوبصورت ڈیزائن میں کس طرح کی پیچیدگیاں چھپی ہوئی ہیں۔ یہ ایک زندہ جسم کی طرح ہیں کیونکہ آپ اسے سمیٹتے ہیں یا اس کی مرمت کرتے ہیں، اس کی دیکھ بھال کرتے ہیں اور بالآخر اس سے جڑ جاتے ہیں۔ لکشمن چوگانی کے لیے کلاک ٹاور کو بحال کرنا پیسہ کمانے کا ذریعہ ہی نہیں ہے بلکہ پرانے دور کی اکائیوں کو زندگی بخشنے جیسا ہے۔

وہ بڑی محنت سے ہر ٹاور کو بحال کرتے ہیں۔ گھڑیاں بنانے میں لکشمن ،اپنی تمام تخلیقی صلاحیتوں کا استعمال کرتے ہیں۔وہ کہتے ہیں کہ میں اپنے شوق کے لیے، اپنے لیے گھڑیاں بناتا ہوں۔ یہ صدیوں کی تکنیک ،میکانزم اور امپرووائزیشن کے تعلق سے محرک ہیں۔