خواجہ دردؔ:دبستان دہلی کا وہ صاحبِ دل شاعرجس نےعشق حقیقی کا پیغام دیا

Story by  غوث سیوانی | Posted by  [email protected] | Date 20-09-2022
خواجہ دردؔ:دبستان دہلی کا وہ صاحبِ دل شاعرجس نےعشق حقیقی کا پیغام دیا
خواجہ دردؔ:دبستان دہلی کا وہ صاحبِ دل شاعرجس نےعشق حقیقی کا پیغام دیا

 

 

عرس حضرت خواجہ میردرد دہلوی پر خصوصی تحریر

غوث سیوانی، نئی دہلی

ارض و سما کہاں تری وسعت کو پا سکے

میرا ہی دل ہے وہ کہ جہاں تو سما سکے

دردؔ دہلوی کا یہ شعر، سخن فہم طبقے میں مشہور ہے۔ حضرت خواجہ میردردؔ کی قبر ہندوستان کی قومی راجدھانی دہلی کے جس علاقے میں واقع ہے، اسے اب بستی خواجہ میر درد کے نام سے جانتے ہیں۔یہ ایک بے ہنگم آبادی والا علاقہ ہے جو راجدھانی کے سب سے مہنگے علاقے کناٹ پیلیس سے تقریباً پانچ منٹ کی ڈرائیو پر ہے۔ دہلی کا مشہوراور تاریخی ادارہ ذاکرحسین کالج (دہلی کالج)بھی یہاں سے قریب ہی ہے۔تاریخی شواہد کے مطابق کبھی یہاں قبرستان ہوا کرتا تھا اب کچی آبادی ہے جہاں تنگ وتاریک گلیاں ہیں اور گلیوں میں کہیں کہیں اب بھی قبریں نظر آتی ہیں۔ یہاں سورج کی روشنی زمین تک نہیں پہنچتی۔ اسی بستی میں ایک چھوٹے سے احاطے کے اندر اپنے عہد کے معروف صوفی اور شاعر خواجہ میردرد کی قبر ہے جہاں انسان کم ہی آتے ہیں مگر بکریاں اکثر دکھائی پڑتی ہیں۔ صفر المظفر کی بائیس تاریخ کو ہرسال یہاں دھوم دھام کے ساتھ 18 ویں صدی کے اس صوفی شاعر کا عرس بھی منایا جاتا ہے۔

خاندانی پس منظر

خواجہ میر درد کا خاندان بہت سے رئیسوں کی طرح بخارا سے آیا تھا۔ ان کا شجرہ نسب سلسلہ نقشبندیہ کے بانی حضرت بہا لدین نقشبند سے ملتا ہے جو امام حسن عسکری رحمۃ اللہ علیہ کی اولاد سے تھے۔ جب کہ والدہ کی طرف سے حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی آپ کے اسلاف میں سے تھے۔ دردؔ کے جدامجد خواجہ محمد طاہر 17ویں صدی عیسوی میں دہلی آئے تھے۔ انھیں مغل بادشاہ اورنگ زیب نے اعلیٰ عہدوں سے نوازا تھا۔ خواجہ میر دردؔ 1720میں دہلی میں پیدا ہوئے اور1785میں یہیں وصال فرمایا۔

شاعراورصوفی

وہ دبستان دہلی کے ایک زبردست شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ نقشبندی-مجددی سلسلےکے صوفی بھی تھے۔ انھوں نے شعر وسخن میں اپنی علاحدہ طرز ایجاد کی اور جس دور میں عموماً اردو شاعری عشق مجازی کے گرد گھوم رہی تھی، دردؔ نے اسے عشق حقیقی کا خوگر بنادیا۔ ان کی پوری شاعری کا محور عشق حقیقی ہی ہے۔

 آپ کا پورا نام سید خواجہ میر تھا اور ’درد‘ تخلص تھا۔ شاعری کا ذوق اور طبع موزوں والدمحترم خواجہ محمد ناصرسے ورثے میں ملا تھا جو فارسی کے مشہور شاعر تھے اور عندلیبؔ تخلص کرتےتھے۔

  سپہ گری سے تقویٰ شعاری تک

 شروع شروع میں آپ نے سپاہی کا پیشہ اختیار کیا لیکن پھرصوفیانہ مزاج کو خون خرابے کی راہ پسند نہ آئی اورمحض 29 سال کی عمر میں سب چھوڑ کر کنارہ کشی اختیار کر لی اور 39 سال کی عمر میں والد صاحب کے انتقال کے بعد آپ سجادہ نشین بن گئے۔

خلوص نیت، دیانتداری، تقویٰ شعاری اور عبادت گزاری کی وجہ سے امیر، غریب سب آپ کی عزت کرتے تھے۔ مال و دولت اور عیش وعشرت کو چھوڑ کر فقیرانہ زندگی گزارنے لگے۔ دہلی کے معززین اکثر مغل بادشاہوں کے دربار میں جایا کرتے تھے مگر آپ کبھی کسی وزیر یا شہنشاہ کے دربار میں نہیں گئے۔ مغل بادشاہ، شاہ عالم خود آپ سے ملنے آیا کرتا تھا۔

 خواجہ میردردؔ موسیقی میں بھی مہارت رکھتے اور ہرماہ موسیقی کی محفل منعقد کیا کرتے تھے جس میں شہر کے ماہر موسیقار اور گلوکار شامل ہوتے تھے۔

  ان کے دور میں دہلی شہر بہت ہنگامہ آرائی سے گزرا تھا۔ احمد شاہ ابدالی اور مرہٹوں کے حملوں کی وجہ سے شہر برباد ہو گیا تھا۔ لوگ  دہلی چھوڑ کر جا نے پر مجبور تھے۔ میر تقی میرؔ اور مرزا محمد رفیع سوداؔ جیسے شاعروں نے بھی دہلی چھوڑ لکھنؤ چلے جانے کا فیصلہ کیا تھا ، لیکن دردؔ نے اپنے محبوب شہر کو نہیں چھوڑا۔

شعری انفرادیت

دردؔ منفرد قسم کے شاعر تھے۔ انھوں نے شاعری کو کسی کی مدح یا ہجو کے لئے استعمال نہیں کیا۔ معروف نقاد ڈاکٹر جمیل جالبی کا خیال ہے کہ:

درد کے نزدیک شاعری کوئی ایسا کمال نہیں ہے کہ آدمی اسے اپنا پیشہ بنالے اور اس پر ناز کرے ۔ وہ شاعری کو انسانی ہنروں میں سے ایک ہنر سمجھتے ہیں۔ بشرطیکہ اسے صلہ حاصل کرنے یا دنیا کمانے کے لئے استعمال نہ کیا جائے ۔ شاعر کا منصب یہ نہیں کہ وہ شاعری کو مدح یا ہجو کے لئے استعمال کرے یا دنیا کمانے کے لئے دربدر مارا پھرے ۔ درد کے نزدیک شاعری ان معارف تازہ کا اظہار ہے جو قلب شاعر پر وارد ہوتے ہیں ۔ کلام موضوع و مربوط ایک عجیب لذت رکھتا ہے جس سے دل کی کلی کلی کھل اٹھتی ہے ۔ درد کے نزدیک شاعری ایک نہایت سنجیدہ سرگرمی ہے جس کا مقصد یہ ہے کہ شاعر اپنے وارداتِ قلبیہ اور تجربات باطنی کا اظہار کرے اور اس طور پر کرے کہ شعر سننے والے کے دل میں گھر کرلے ۔ اسی لئے انہوں نے شاعری کو مدح یا ہجو سے ملوث نہیں کیا اور شاعری میں ملا کر ایک کردیا ۔

 دردؔکے چند مشہور اشعار ملاحظہ ہوں:

جگ میں آ کر ادھر ادھر دیکھا

تو ہی آیا نظر جدھر دیکھا

جان سے ہو گئے بدن خالی

جس طرف تو نے آنکھ بھر دیکھا

ارض و سما کہاں تری وسعت کو پا سکے

میرا ہی دل ہے وہ کہ جہاں تو سما سکے

وحدت میں تیری حرف دوئی کا نہ آ سکے

آئینہ کیا مجال تجھے منہ دکھا سکے