کالانمک چاول: مہاتما بدھ کا ایک اہم تحفہ

Story by  ایم فریدی | Posted by  Shah Imran Hasan | 2 Years ago
کالانمک چاول: مہاتما بدھ کا ایک اہم تحفہ
کالانمک چاول: مہاتما بدھ کا ایک اہم تحفہ

 

 

شائستہ فاطمہ، نئی دہلی

 ریاست اترپردیش کا ضلع سدھارتھ نگرایک سرحدی علاقہ ہے، جو نیپال سے متصل ہے۔ یہ ضلع مہاتما بدھ کےآبائی وطن کے طور پر اپنی ایک منفرد شناخت رکھتا ہے۔جہاں یہ شہر مہاتما بدھ کی وجہ سے مشہور ہے، وہیں یہاں چاول کی ایک خاص قسم پائی جاتی ہے، جسے کالا نمک(Black Salt)کہا جاتا ہے۔

اس چاول کی بھوسی کا رنگ کالاہوتا ہے اور اس کا ذائقہ نمکین ہے، اس لیے اسے کالا نمک چاول کہا جاتا ہے۔ کالا نمک کی کھیتی کرنے والے کسان سوریہ ناتھ مشرا نے اس سلسلے میں بتایا کہ کالا نمک دھان کا پودا تقریباً 4 سے 5 فٹ تک بڑھتا ہے، جو چاول کے عام اقسام سے زیادہ اونچا ہوتا ہے۔ نیز فصل پکنے کے بعد اس کا پودا عام طور پر گرنے لگتا ہے۔

کالا نمک کوبلیک پرل رائس(Black Pearl Rice) کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، اس چاول میں ایک الگ طرح کی خوشبو ہوتی ہے۔ کچے چاول میں بھی خوشبو ہوتی ہے، اس کی بھوسی میں بھی خوشبو پائی جاتی ہے۔ایسا خیال کیا جاتا ہے کہ طبی نقطہ نظر سے اس کے بہت سے فوائد ہیں۔

کالا نمک چاول کی دریافت تین ہزار سال قبل مہاتما بدھ کے زمانہ یعنی 600 سال قبل مسیح میں ہوئی تھی، ایسا مانا جاتا ہے کہ قدیم زمانے میں اس کی کاشت کی گئی تھی۔

علی گڑھوا(Aligarhwa) کی کھدائی میں کالا نمک چاول کے نمونے ملے ہیں۔ خیال رہے کہ علی گڑھوا آج کے سدھارتھ نگر کا حصہ ہے۔جوکبھی کپل وستو کا ہی حصہ ہوا کرتا تھا۔اس علاقے کے راجہ شدھانند تھے۔ وہ سدھارتھ گوتم کے والد تھے، سدھارتھ کوجب نروان حاصل ہوا تو انہوں نے اپنے گھر اور خاندان کو چھوڑ دیا اور شہر چھوڑ کر چلے گئے، اس کے بعد انہوں نے بدھ مت کی بنیاد رکھی۔

ایسا کہا جاتا ہے کہ نروان حاصل کرنے کے بعد مہاتما بدھ ایک بار اپنے آبائی شہر کپل وستو کی طرف جا رہے تھے، جہاں ان کا بچپن شہزادے کے طور بیتا تھا۔ جب وہ ترائی کے جنگل' بجھا' کے قریب متھلا گاوں سے گزرے تو گاوں والوں نے انہیں روکا اور ان سے درخواست کی کہ وہ ان کے لیے دعا کریں، انہیں  آشرواد دیں۔

مہاتما بدھ نے گاوں والوں کو خوشبو دار کالی بھوسی والے دھان بطور تبرک دیےاور اس موقع پر انہوں نے کہا کہ وہ اس چاول کو اُگائیں۔ اس سے خوشبودار چاول پیدا ہوں گے جو لوگوں کو ہمیشہ ان کی یاد دلائیں گئے۔ اس کے بعد لوگوں نے اس دھان کو اُگانا شروع کر دیا۔ مقامی لوگوں نے اس تعلق سے بتایا کہ جب یہ دھان کہیں اور اُگائے جاتے ہیں تواس میں وہ لذت اور خوشبو باقی نہیں رہتی، جویہاں سدھارتھ نگر میں پائی جاتی ہے۔

برطانوی راج کے دوران کالانمک دھان کے تحفظ کی   کوشش ابتداً کئی انگریزوں مثلاً ولیم پیپے(William Pepe)، جے ایچ ہیمپرے(J H Hemprey) اور ایڈکن واکر( Edcan Walker ) وغیرہ نے کی تھی۔ یہ تمام انگریز بالترتیب علیدا پور، برڈ پور اورموہنا کےزمیندار تھے۔انہوں نے بڑی مقدار میں کالانمک پیدا کرنے کے لیے باجا، مارتھی، موتی اور مجہولی میں چار آبی ذخائر بنائے۔ انہوں نے نہ صرف کالانمک دھان کو اپنے استعمال کے لیے تیار کیا بلکہ اسے اسکا بازاز منڈی(Uska-Bazar mandi) میں بھی بھیجا، یہ منڈی اب بنگلہ دیش میں واقع ہے،۔انگریزوں نے کالانمک چاول کوسمندری راستے سے انگلینڈ بھی بھیجا تھا۔

ریاستی حکومت نے اس کی پیداوار کو بڑھانے کے لیے ڈاکٹروں، ماہرین اور سائنسدانوں کو شامل کرکے متعدد اسکیمیں شروع کی ہیں۔ اب کسان اس کی پیداوار سے زیادہ سے زیادہ منافع حاصل کر رہے ہیں۔ سوریہ ناتھ کہتے ہیں کہ سائنس دانوں نے ہمیں زیادہ پیداوار کے لیے بیج کے تحفظ اور ایک سے زیادہ کٹائی کی تکنیک سکھائی ہے۔ اس کے علاوہ وہ عالمی سطح پر زیادہ پیداواربڑھانے میں بھی ان کی مدد کر رہے ہیں۔ 

وہیں ایک صحافی سے کسان بنے دینا ناتھ کہتے ہیں کہ حکومت کی 'ایک ضلع ایک پروڈکٹ اسکیم'(One district One product scheme ) کے بعد پیداوار میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے۔اس طرح، وہ فی الحال نہ صرف کالانمک چاول کاشت کر رہے ہیں بلکہ اس کی تجارت بھی کر رہے ہیں۔

دینا ناتھ نے بتایا کہ کالا نمک چاول میں بہت سے غذائی اجزاء موجود ہیں۔ قیمت زیادہ ہونے کے سبب معاشی طور پر مستحکم افراد ہی اسے خرید پاتے ہیں۔ دینا ناتھ کسانوں سے کالانمک چاول خریدتے ہیں اور اسے شہروں میں لے جاکر فروخت کرتے ہیں، کیوں کہ انہیں شہر میں اچھی قیمت مل جاتی ہے۔

خیال رہے کہ پکا ہوا کالانمک چاول بین الاقوامی معیار کے برابر ہے۔ اس چاول میں بہت زیادہ مقدار میں مائیکرو نیوٹرینٹس(micro-nutrients) ہوتے ہیں؛مثلاً آئرن، کاپر، میگنیشیم اور زنک۔ سوریا ناتھ کہتے ہیں کہ کالانمک چاول بچوں اور بزرگوں کے لیے ایک صحت بخش غذا ہے، کیونکہ یہ قدرتی طور پر شوگر سے پاک ہے۔

تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ کالانمک چاول کا باقاعدہ استعمال سے آئرن اور زنک کی کمی کی وجہ سے ہونے والی الزائمر اور دیگر بیماریوں سے بچاجا سکتا ہے۔ کم گلیسیمک انڈیکس( glycemic index) چاول ہونے کی وجہ سے اسے شوگر فری چاول بھی کہا جاتا ہے۔ اس کا گلیسیمک انڈیکس 55 سے کم ہونے کی وجہ سے یہ باسمتی چاول کی دیگر اقسام کے مقابلے میں کافی کم ہے اورڈائبٹیز کے شکار لوگوں کے لیے فائدہ مند ہے۔

کالانمک چاول باسمتی چاول سے معیاری طور پر بہتر ہے، اگرچہ یہ غیرباسمتی چاول ہے ۔ اس میں شک نہیں کہ خوشبودار کالانمک چاول دراصل مہاتما بدھ کا تحفہ ہے، جو تمام باسمتی چاول کے اقسام سے زیادہ بہتر ہے۔

پکا ہوا کالا نمک چاول دیگر چاول کے مقابلے میں کافی لمبا ہوتا ہے اور بین الاقوامی سطح پر اسی وجہ سے یہ خصوصی اہمیت کا حامل ہے۔ اس کی لمبائی عام باسمتی چاول سے 40 فیصد زیادہ ہوتی ہے۔  حکومت ہند کی کوششوں سے کالانمک کو 2013 میں جیوگرافیکل ٹیگ (جی آئی) ٹیگ مل چکا ہے۔اس کے علاوہ اسے اقوام متحدہ کے فوڈ اینڈ ایگریکلچر آرگنائزیشن(FAO) کی کتاب اسپیشلٹی رائس آف دی ورلڈ میں بھی شامل کیا جا چکا ہے۔