اسلام،علم اور طالب علم

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 17-11-2022
اسلام،علم اور طالب علم
اسلام،علم اور طالب علم

 

 

احسان الٰہی ظہیر پسروری

علم ایک لازوال اور قیمتی دولت ہے وہ خرچ کرنے سے گھٹتی نہیں بڑھتی ہے، اسے چور چرا نہیں سکتا، پانی بہا نہیں سکتا اور آگ جلا نہیں سکتی، رشتہ دار تقسیم نہیں کر سکتے، یہ تو صاحب علم کو جلا بخشتی ہے، اسلام نے اس کے حصول کو تمام مسلمانوں پر فرض قرار دیا ہے۔ اس کی فضیلت بیان کرتے ہوئے نبی کریمﷺ نے فرمایا: کہ جو حصول علم کے لئے کہیں کا سفر کرے، اللہ تعالیٰ اس کے لئے جنت کا راستہ آسان فرمائے گا، اس کی اہمیت و فضیلت کا اندازہ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ غار حرا میں آمنہ کے لال محمد بن عبداللہؐ پر سب سے پہلے جو پانچ آیتیں نازل ہوئیں وہ تقریباً تمام کی تمام حصول علم کے ذرائع پر ہی مشتمل ہیں، وہ فرشتے جنہوں نے تخلیق آدم پر اعتراض کیا تھا، ان پر حضرت آدم علیہ کو اسی علم کے ذریعے فضیلت و برتری حاصل ہوئی، وہ عزیز مصر جس نے بے گناہ یوسفؑ کو اپنی بیوی کی الزام تراشی پر نظر زنداں کیا، آخر انہوں نے بھی اسی علم کی بدولت جیل کی لمبی لمبی دیواریں پھاندیں اور مصر کے تخت پر جلوہ افروز ہوئے۔ الغرض تمام انبیاء علیہم اسلام کو اللہ تبارک و تعالیٰ نے ایک خاص علم و فن کی دولت سے نوازا تھا، جس کی وجہ سے وہ انہیں امت میں ممتاز وفائق رہے۔

دور اول کے مسلمانوں نے علم و فن کی اس اہمیت و فضیلت کو سمجھا اور اس کے حصول کے لئے انتھک کوششیں کیں، نتیجہ یہ ہوا کہ وہ دنیا کے امام اور قائد ثابت ہوئے، عروج و ارتقاء ان کا مقدر ہوا، لیکن رفتہ رفتہ مسلمانوں نے اس میدان میں کوتاہی کرنی شروع کر دی، بالآخر زوال و انحطاط ان کا مقدر ہوگئی اور وہ محکوم و مقہور ہوگئے،اگر آج بھی ہم حصول علم میں سرگرداں اور کوشاں ہو جائیں تو یقیناً پھر سے عروج و اقبال ہمارے نصیبے میں آجائے گا اور ہم دوبارہ دنیا کے امام و قائد ثابت ہوں گے۔

حصول علم ایک عبادت ہے، جس کی قبولیت کا دارومدار اخلاص وللٰہیت پر ہے:’’انہیں حکم نہیں دیا گیا، اس کے سوا کہ صرف اللہ کی عبادت کریں اسی کے لئے دین کو خاص رکھیں۔ (بینتہ:5)

نیت کی درستی کا مسئلہ اتنا آسان نہیں، حضرت سفیان ثوریؒ جیسے مشہور تابعی کا بیان ہے: کہ مجھے سب سے زیادہ پریشانی نیت کے درست کرنے میں ہوئی۔ لیکن اسے ایک مستقل کام ہونے کی حیثیت سے اصلاح کی فکر نہ کرنا، درستی سے لاپرواہ ہونے کی بجائے مسلسل اس کی اصلاح کی کوشش کرنی چاہئے:

امام یوسفؒ فرماتے ہیں کہ علم ایک ایسی چیز ہے کہ جب تم اپنی ساری زندگی اس کے لئے وقف کر دو گے جب جا کر علم تم کو اپنا بعض حصہ دے گا، جب اس کا بعض تم کو مل جائے تو اس پر تکیہ کر کے مت بیٹھ جاؤ، بلکہ مزید حاصل کرنے کی کوشش کرو۔

علم و عمل کے سمندر عبداللہ بن مبارکؒ سے جب حصول علم کی مدت کے بارے میں دریافت کیا گیا تو آپ نے کہا کہ علم اس وقت تک حاصل کرتے رہو جب تک جسم میں جان ہو۔

سفیان بن عینیہؒ فرماتے ہیں کہ جب اہل علم کو یہ گمان ہونے لگے کہ اس کا علم مکمل ہو چکا ہے تو سمجھ جاؤ کہ اس کی جہالت کا دور شروع ہو چکا ہے۔

حصول علم کے دوران اسباق کے یاد نہ ہونے یا اسباق کے سمجھ میں نہ آنے کا مسئلہ بسا اوقات ایک سنگین صورت حال اختیار کر لیتا ہے، اس کی وجہ سے طلبہ کبھی کبھی احساس کمتری کا شکار ہو کر حصول علم کے ترک کا فیصلہ کر بیٹھتے ہیں، حالانکہ سلف کی زندگیاں بتاتی ہیں کہ یہ کوئی ایسا مسئلہ نہیں کہ اس کی وجہ سے حصول علم کا ارادہ ترک کر دیا جائے، بلکہ یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جو مسلسل محنت و سعی سے باآسانی حل ہو سکتا ہے۔

امام عسکریؒ اپنے متعلق فرماتے ہیں کہ جب مَیں نے حفظ کرنا شروع کیا تو یہ چیز مجھ پر بڑی گراں گزری، لیکن میں مسلسل محنت کرتا رہا، یہاں تک کہ ایک وقت وہ بھی آیا کہ مَیں نے ایک ہی رات میں قصیدۂ روبہ (جو تقریباً دو سو اشعار پر مشتمل ہے) یاد کر لیا، یقیناً یہ قوت حافظہ مجھے مسلسل محنت ہی سے حاصل ہوا۔

مشہور و معروف محدث امام بخاریؒ سے قوت حافظہ کی مضبوطی کے بارے میں سوال کیا گیا تو انہوں نے کہا: قوت حافظہ کا علاج مسلسل کتابوں کا مطالعہ کرنا ہے۔

خود امام عسکریؒ بعض ایسے مشائخ سے نقل کرتے ہیں کہ جنہوں نے ایک ایسی بستی کے نوجوان کو فصیح و بلیغ زبان میں تقریر کرتے ہوئے دیکھاکہ جہاں کے لوگوں کی زبان میں لکنت ہوتی تھی، نوجوان سے جب سبب دریافت کیا گیا تو انہوں نے کہا: میری زبان میں صحیح معنوں میں لکنت تھی، لیکن مَیں نے ’’جاحظ‘‘ کی کتاب کے پچاس اوراق روزانہ بلند آواز سے پڑھنے کی مشق کی تو میری زبان سے لکنت ختم ہوگئی اور مَیں فصاحت و بلاغت کے اس معیار پر پہنچ گیا جس کو دیکھ کر آج تم تعجب کر ر ہے ہو۔

حصول علم صبر و تحمل اور ایثار و قربانی چاہتا ہے، لہٰذا علم حاصل کرنے والوں میں محنت و مشق کے برداشت کرنے کا جذبہ اور اس راہ میں آنے والے مصائب و مشکلات پر صبر کرنے کا حوصلہ ہونا چاہئے۔ حدیث قدسی ہے، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں نے علم محنت و مشقت میں چھپا رکھا ہے اور اسے سیری میں تلاش کرتے ہیں، بھلا وہ اسے کہاں پائیں گے۔

امام دار الھجزۃ مالک بن انسؒ فرماتے ہیں کہ علم اس وقت تک حاصل نہیں ہو سکتا جب تک کہ اس راہ میں محنت و مشقت کی لذت نہ چکھی جائے۔

امام ربیعہؒ کے بارے میں آتا ہے کہ انہوں نے سڑی ہوئی کشمش میں سے اچھی کشمشوں کو چن کر صاف کیا اور اسے کھا کر علم حاصل کیا، لیکن اس پریشانی کی وجہ سے انہوں نے حصول علم کو ترک نہیں کیا۔ حجاج بن یوسفؒ بغدادی جو کہ مشہور محدث ہیں وہ اپنے بارے میں بتاتے ہیں کہ میری والدہ سو روٹیاں پکا دیتیں، مَیں وہ روٹیاں کسی کپڑے میں باندھ لیتا اور امام شبانہؒ کی خدمت میں حاضر ہو جاتا، ہر دن ایک روٹی نکالتا اور دریائے دجلہ کے پانی میں بھگو کر کھا لیتا، جب سو دن ہو جاتے اور روٹیاں ختم ہو جاتیں تو مَیں واپس آجاتا۔

اسی طرح امام طبرانیؒ جو کہ محدث ہیں۔ ان کے بارے میں آتا ہے کہ ان کے پاس تیس سال تک بستر نہیں تھا، وہ تیس سال تک چٹائی ہی پر سوتے رہے۔

علماء اور حکماء کا کہنا ہے کہ سب سے بڑی اہم اور قیمتی شے وقت ہے، لہٰذا اس کی قدر و قیمت پہچانتے ہوئے اس سے بھرپور استفادہ کرنا چاہئے، کسی نے کہا: کہ وقت تلوار کی مانند ہے اگر تم اسے استعمال کر کے اس سے فائدہ نہیں اٹھاؤ گے تو وہ تم کو نقصان پہنچائے گا۔ علامہ ابن قیمؒ فرماتے ہیں کہ اہم ترین ضائع ہونے والی چیزوں میں دو چیزوں کا ضیاع ازحدہے، ایک وقت کا ضیاع، دوسرا دل کا ضیاع، وقت کا ضیاع لمبی لمبی آرزاؤں اور تمناؤں سے ہوتا ہے اور دل کا ضیاع آخرت پر دنیا کو ترجیح دینے سے۔

علامہ ابن جوزیؒ فرماتے ہیں کہ سب سے اہم اور قیمتی چیز وقت ہے، لہٰذا اسے ضائع ہونے سے بچانا چاہئے ، ہمارا جو بھی وقت استعمال ہو، اللہ کی قربت کے حصول میں ہو،سلف میں شاید کہ ابن جوزیؒ ہی کے بارے میں آتا ہے کہ ان کو کھانے میں جو وقت لگتا ہے اس کو بھی وہ ضیاع میں شمار کرتے ہیں اور ان کو اس پر افسوس ہوتا ہے کہ ہمارا اتنا وقت کھانے میں ضائع ہو جاتا ہے۔

تعلیم و تربیت کے میدان میں نمایاں کامیابیوں سے ہمکنار ہونے کے لئے ضروری ہے کہ طالب علم اپنے وقت کو منظم کرے، اس لئے کہ تنظیم اوقات مقصد کے حصول میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے، کسی نے کہا کہ اچھی منصوبہ بندی کام کی آدھی تکمیل ہے، ترقی یافتہ ملکوں کی شاندار کامیابیوں کا راز بھی تنظیم اوقات ہے، وہ صدیوں پر محیط ایک منصوبہ بناتے ہیں، پھر اس منصوبہ کے مطابق محنت و سعی کرتے ہیں۔

تعلیم کا بنیادی مقصد اخلاق و کردار کی تعمیر ہے، مربی اعظمؐ کی ذمہ داریوں کو واضح کرتے ہوئے قرآن مجید نے کہا:’’وہی ہے جس نے ناخواندہ لوگوں میں ان ہی میں سے ایک رسول بھیجا جو انہیں اس کی آیتیں پڑھ کر سناتا ہے اور ان کو پاک کرتا ہے اور انہیں کتاب و حکمت سکھاتا ہے۔(جمہ:3)

خود نبی کریمﷺ نے اپنی بعثت کا مقصد بتاتے ہوئے کہا: مَیں مکارم و اخلاق کی تکمیل کے لئے بھیجا گیا ہوں، نیز آپؐ نے فرمایا:’’ کہ تم علم حاصل کرو اور اس کے لئے وقار وسنجیدگی پیدا کرو‘‘۔

حضرت عبداللہ بن مسعودؓ طلبہ سے فرماتے ہیں: کہ علم کی معرفت چشمہء ہائے رواں اور روشن چراغ ہو جاؤ۔

لیث بن سعدؒ طلبہ کو نصیحت کرتے ہوئے فرماتے تھے: کہ علم حاصل کرنے سے پہلے بردباری حاصل کرو، جو علم حدیث حاصل کرتا ہے، وہ اعلیٰ علم حاصل کر رہا ہے، لہٰذا اسے تمام لوگوں سے ممتاز اور اعلیٰ ہونا چاہئے۔

امام غزالیؒ طلبہ کے اخلاق و کردار کے تعلق سے فرماتے ہیں کہ طلبہ کو چاہئے کہ وہ بُرے اخلاق و عادات سے احتراز کریں، تعلقات مختصر رکھیں، گھر سے دور رہیں تاکہ حصول علم کے مواقع زیادہ ملیں، غرور و تکبر سے بچیں، اساتذہ کے ساتھ حاکمانہ برتاؤ نہ کریں، بلکہ اساتذہ کے سامنے اپنے آپ کو اس طرح ڈال دیں، جس طرح کے مریض اپنے آپ کو ڈاکٹر کے حوالہ کر دیتا ہے۔

علم اللہ تعالیٰ کا نور ہے، جو اس کے فرمانبردار بندوں ہی کو ملتا ہے، لہٰذا اس نور سے اپنا سینہ مزین کرنے والوں کو چاہئے کہ وہ علم کی قدر کرتے ہوئے برائیوں سے اجتناب کریں ورنہ تین حالتوں میں سے کسی ایک حالت سے اسے دوچار ہونا پڑے گا، نبی کریمﷺ نے فرمایا: جو طالب علم حصول علم کے زمانے میں برائیوں سے اجتناب نہیں کرتا، اسے تین چیزوں میں سے کوئی ایک چیز حاصل ہوگی۔

عین عالم جوانی میں اس کی موت ہوگی۔

وہ حیران و پریشان در در کی ٹھوکریں کھائے گا، اپنے علم اور قابلیت و صلاحیت سے کسی کو فائدہ نہیں پہنچایا جائے گا۔

یا کسی بادشاہ کی خدمت میں ذلت کی زندگی گزارنے پر مجبور ہوگا۔

امام شافعیؒ نے اپنے استاد وکیع بن جراحؒ سے سوئے حفظ کی شکایت کی تو انہوں نے ترک معصیت کی تاکید کی۔

علم و عمل دونوں لازم و ملزوم ہیں۔ علم اتنا پختہ اور اس میں اتنی ہی زیادہ خیر و برکت ہوتی ہے جتنا کہ اس پر عمل کیا جائے، صحابہ کرام میں علم کے مطابق عمل کرنے کا بے حد جذبہ پایا جاتا تھا۔

حضرت عبداللہ بن مسعودؒ فرماتے ہیں کہ ہم لوگ جب قرآن مجید کی دس آیتیں سیکھ لیتے تو جب تک ان کے معانی جان کر ان پر عمل پیرا نہیں ہو جاتے اس وقت تک آگے نہیں بڑھتے تھے۔

حضرت علیؓ فرماتے ہیں کہ علم عمل کو آواز دیتا ہے، اگر علم عمل پاتا ہے تو رکتا ہے ورنہ وہ بھی رخصت ہو جاتا ہے۔

حضرت عمر بن خطابؓ نے ابی بن کعبؓ سے دریافت کیا کہ طالب علم کون ہے؟ توآپ نے کہا جوا پنے علم کے مطابق عمل کرتا ہے۔

حصول علم کے لئے اساتذہ کا ادب و احترام اور عزت و توقیر ناگزیر ہے۔ نبی کریمﷺ نے فرمایا کہ جن سے تم علم حاصل کرتے ہو، ان کے ساتھ تواضع و انکساری کے ساتھ پیش آؤ، حضرت حسینؓ استاذ کو والد پر ترجیح دیتے تھے اور کہتے تھے کہ والد تو گوشت پوست کی شکل کا ذریعہ بنتے ہیں جبکہ اساتذہ اس کو سنوارتے ہیں، امام غزالیؒ اپنی کتاب ’’احیاء العلوم‘‘ میں لکھتے ہیں کہ اساتذہ کا درجہ والدین سے بڑھ کر ہے۔ اس لئے کہ والدین موجودہ وجود اور فانی زندگی کا سبب بنے جبکہ اساتذہ اس کو سنوارنے اور آخرت کے علوم سے بہرہ ور کا باعث بنے، اگر اساتذہ نہ ہوتے تو والدین سے اولاد کو جو حاصل ہوا وہ سب ہلاک و برباد ہو جاتے، یہ اساتذہ ہی ہیں جو جسم انسانی کو علوم اخروی کے ذریعے بنانے اور سنوارنے کا فریضہ انجام دیتے ہیں۔ حضرت علیؓ فرماتے ہیں کہ جس نے مجھے ایک بھی حرف سکھایا گویا کہ اس نے مجھے اپنا غلام بنا لیا۔

ایک طالب علم کو سب سے زیادہ نقصان پہنچانے والی اس کی تعمیر و ترقی کی راہ میں رکاوٹ بننے والی اور مقصد کے حصول میں ناکامی کا منہ دکھانے والی چیز سستی و کاہلی ہے، کسی نے کہا: کاہلی و سستی زہر کے اس قطرہ کی طرح ہے جو قابل استعمال چیز کو ناکارہ بنا دیتی ہے ،کاہلی و سستی ایک ذہین اور کامیاب طالب علم کو ناکامی سے ہمکنار کرتی ہے۔