اسلام اور ماحولیات

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 04-06-2021
اسلام اور ماحولیات
اسلام اور ماحولیات

 

 

 ڈاکٹر عبید الرحمن ندوی،

استاد دار العلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ

۔    1973کے ۵ /جون کو پورے عالم میں یوم ماحولیات منایاجاتاہے۔ ہم ہندوستان میں بھی یوم ماحولیات پورے جوش خروش کے ساتھ مناتے ہیں لیکن ماحولیات کو تباہی اور بربادی سے بچانے کے لئے کم توجہ دی جاتی ہے۔ بلاشبہ اس دنیا میں ایک پرسکون زندگی جینے کے لئے، ایک معتدل اور صحت مند ماحول ضروری ہے۔ لہذٰا ہر ممکن طریقے سے اسے تباہی سے بچانے کے لئے ہمارا لازمی فریضہ ہونا چاہئے۔

 یہ بات ذہن میں رکھنی چاہئے کہ ماحول صرف جنگلات، حیوانات، سمندر، پہاڑ، زمین اور پودوں کی طبعی دنیا نہیں ہے جو ہمارے آس پاس ہے بلکہ اس کا تعلق ان تمام اشیاء سے ہے جو ہماری زندگی کو متأثر کرتی ہیں۔ چنانچہ ایک اچھا ماحول پیداکرنے کے لئے، ہمیں ان تمام افعال اور غیر پاکیزہ اعمال کو نظرانداز کرنا ہوگا جو اسے برباد کرنے کی وجہ بنتے ہیں۔ کسی نے درست کہاہے:”جب ہم کہتے ہیں کہ ہمارا ماحول ہمارے اوپر اثر انداز ہوتاہے، تو کیا ہم صرف اپنے گرد وپیش کے اپنے مادی جسم پر اثر کی بات کرتے ہیں یا اپنے شخصیت کے تمام پہلوؤں جیسے جذبات، افکار، اخلاقی اقدار اور مذہبی تصورات کی بات کرتے ہیں؟ایک محبت سے بھرپور، خوش باش اور پرسکون گھر ہماری چہار طرفہ افزائش اور ترقی کا وسیلہ ہوتاہے۔ ہرے بھرے مرغزاروں، رنگ برنگے پھولوں، خوبصورت حیوانات اور اچھے مزاج کے لوگوں کی مصاحبت ہماری روحوں کو فرحت بخشتی ہے اور ہمیں ناقابلِ بیاں مسرت سے معمور کردیتی ہے۔دوسری طرف، غیر صحت بخش ٹی وی کے پروگرام، جنس وتشدد والی فلمیں، تمام قصبات اور شہروں میں اشتہاری تختوں پر چسپاں غیر اخلاقی پوسٹر، گندی زبانیں، عدم احترام، بدعنوان اور جرائم ہمیں نکبت کی گہرائیوں میں کھینچتی ہیں اور ماحولیات کے اس بڑے حصے کو آلودہ کرتی ہیں جو ہمیں اپنے آغوش میں رکھتے ہیں“۔

اسلام ماحولیات کے تحفظ پر بڑازور دیتاہے۔ اللہ تعالیٰ نے تمام اشیاء بنی نوع انسان کے فائدے کے لئے پیدا کی ہیں۔ لہذٰا یہ لازمی ہے کہ ان کا مناسب استعمال ہو اور انہیں بربادی سے بچایاجائے۔ اس بات کا لحاظ رکھنا چاہئے کہ اسلام ہمیشہ اعتدال والی زندگی پسند کرتاہے۔ یہ کسی کو بھی عیش وعشرت سے پُر زندگی سے لطف اندوز ہونے کی فطری وسائل کے بربادی کی قیمت پر اجازت نہیں دیتاہے۔ قرآن مجید کا ارشادہے:”اور ہم نے ہر شے کی تخلیق پانی سے کی ہے“۔ (الانبیاء: ۰۳) ”بے شک فضول خرچ لوگ شیطان کے بھائی ہیں۔ اور شیطان تو خود اپنے رب کا ہی ناشکرا ہے“۔ (الاسراء: ۷۲) ”جو (مال) اللہ نے تمہیں عطا کیا ہے اس سے آخرت کا گھر بنانے کی فکرکرو اور دنیا میں سے بھی اپنا حصہ فراموش نہ کرو، احسان کرو جس طرح اللہ نے تمہارے ساتھ احسان کیاہے اور زمین میں فساد ربرپاکرنے کی کوشش نہ کرو، بے شک اللہ تعالیٰ مفسدوں کو پسند نہیں کرتا“۔ (القصص: ۷۷) ”زمین میں چلنے والے کسی جانور اور ہوامیں پروں سے اڑنے والے کسی پرندے کو دیکھ لو، یہ سب تمہاری ہی طرح کے انواع ہیں۔ ہم نے ان کی تقدیر کے نوشتے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے۔ پھر یہ سب اپنے رب کی طرف سمیٹے جاتے ہیں“۔ (الأنعام: ۸۳)۔

”روئے زمین پر مہیا اشیاء میں سے کھاؤ پیو“۔ (البقرہ: ۰۶) ”زمین پر فساد نہ برپا کرو“ (البقرہ: ۱۱) ”بحر وبر میں فساد ظاہر ہوچکا ہے لوگوں کے اپنے ہاتھوں کی کمائی سے تاکہ مزہ چکھائے اُن کو ان کے بعض اعمال کا شاید کہ وہ باز آئیں“۔ (الروم: ۱۴) ”پس (اے نبیؐ اور نبیؐ کے پیروو) ایک سُوہوکر اپنا رخ اسی دین کی سمت میں جمادو، قائم ہوجاؤ س فطرت پر جس پر اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو پیدا کیاہے، اللہ کی بنائی ہوئی ساخت بدلی نہں جاسکتی“۔ (الروم: ۰۳) ”آسمانوں اور زمیں کا پیداکرنا انسانون کو پیدا کرنے کی بہ نسبت یقینا زیادہ بڑا کام ہے، مگر اکثر لوگ جانتے نہیں ہیں“۔ (الغافر: ۷۵) ”ہم نے زمین کو پھیلایا، اس میں پہاڑ جمائے، اس میں ہر نوع کی نباتات ٹھیک ٹھیک نپی تُلی مقدار کے ساتھ اگائی، اور اس میں معیشت کے اسباب فراہم کئے، تمہارے لئے بھی اور ان بہت سی مخلوقات کے لئے جن کے رزاق تم نہیں ہو“۔ (الحجر: ۰۲ - ۹۱) ”اے ایمان والو! اسلام میں پورے کے پورے داخل ہوجاؤ؛ اور شیطان کی پیروی نہ کرو کیونکہ شیطان تمہارا کھلا ہو دشمن ہے“۔ (البقرہ: ۸۹۲) پیغمبر محمد ﷺ کا ارشاد ہے:”اگر وقت موعود قریب ہو اور تم میں سے کسی کے ہاتھ میں کھجور کی شاخ ہو اور وقت موعود آنے سے پہلے پہلے وہ یہ پودا لگاسکتاہو تو اسے لگادینا چاہئے اوراسے اس عمل کا اجر ملے گا“۔ (بیہقی)-

- ”جوکوئی ایک درخت لگائے تو جب تک وہ درخت پھل دیتارہے گا اللہ کی طرف سے اسے اجر ملتارہے گا“۔ (مسند احمد) ”اپنے آپ کو ا ن دوچیزوں سے بچاؤ جو خدا کی ناراضگی کو دعوت دیتی ہیں“۔ صحابہ نے پوچھا وہ چیزیں کیاہیں؟ آپؐ نے فرمایا:”ایک تو یہ ہے کہ کوئی شخص سڑک پر استنجا کرے (یا کوئی ایسی جگہ) جو لوگوں کے استعمال میں ہوں، اور دوسری یہ کہ کسی سایہ دارجگہ پرایسا ہی کرے“۔ (مسلم) آپؐ نے مزید فرمایا: ”راستے سے رکاوٹیں ہٹانا صدقہ ہے“۔ اس کے علاوہ ہمیں جانوروں پر بھی رحم کھانا چاہئے۔ ہم اکثر ان کا استعمال اپنی روزانہ کی زندگی کی ضروریات پوری کرنے کے لئے کرتے ہیں۔ نبی کریمﷺ جانوروں کے ساتھ بہت نرم دل اور رحمدل تھے۔ ایک مرتبہ نبی کریم ﷺ نے ایک گدھے کو دیکھا جس کے چہرے کو داغا گیاتھا، آپؐ نے ارشاد فرمایا:”اس پر اللہ کی لعنت جس نے اس کے چہرے کو داغاہے“۔ اگر اونٹوں یا بکریوں وغیرہ کو داغنے کی ضرورت ہو، تو ایسے حصہ کو داغو جو چہرے کی طرح نرم ونازک نہ ہوں۔ ایک مرتبہ نبی کریم ﷺ نے راستے میں ایک اونٹ دیکھا۔انتہائی بھوک کی وجہ سے اس کی پشت اور پیٹ میں بمشکل فرق دکھائی دیتاتھا۔آپؐ نے فرمایا:”اس بے زبان مخلوق کے سلسلے میں اللہ سے ڈرو“۔ ایک روز ایک صحابی رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ وہ اپنے ہاتھ میں کسی چڑیا کے بچے لئے ہوئے تھے جو انہوں نے ڈھک رکھے تھے۔ نبی کریم ﷺ نے ان کے بارے میں استفسار کیا۔ انہوں نے کہا: ”میں نے جھاڑی میں آواز سنی۔ جب میں وہاں پہنچاتو میں نے ان بچوں کو دیکھا اور انہیں باہر نکال لیا۔ جب ماں نے یہ دیکھا، اس نے میرے سر پر منڈلانا شروع کردیا۔ آپؐ نے ارشاد فرمایا: ”جاؤ اور ان چڑیوں کو دوبارہ اسی جگہ رکھ دو جہاں سے تم نے انہیں اٹھایاتھا“

 معروف اسلامی عالم دین سید سلیمان ندویؒ فرماتے ہیں:”اسلام سے قبل کے عرب نیم وحشی تھے۔ وہ زندہ اونٹوں کے پشت سے گوشت کا ٹکڑااور موٹی بھیڑ کی دم کاٹ لیتے تھے جسے وہ بھونتے تھے اور کھانے کا لطف اٹھاتے تھے۔ عربوں کا یہ بھی عمل تھا کہ وہ ایک موٹی حاملہ اونٹنی کو ذبح کرتے تھے بچے کو ماں کی چربی زدہ کوہان کے ساتھ بھوننے کے لئے۔پیغمبر محمد ﷺنے زمانہ جاہلیت کے ان اعمال کا خاتمہ کیا“۔ اس طرح اسلام نے ان تمام اعمال اور اشغال کو ممنوع قرار دیاہے جو جانوروں اور پرندوں کو تکلیف پہنچانے اور انہیں ایذا دینے کا سبب بنتے ہوں کیونکہ ان اعمال سے آدمی جاندار مخلوقات کی تکالیف اور ایذا رسانیوں کو لے کر سنگدل اور بے حس ہوجاتاہے۔ سنگدلی، سفاکی اور سختی اسلام کے نزدیک انسان کے برے اوصاف ہوتے ہیں“۔ (سیرت النبی، جلد ۵، ص: ۴۷۲ - ۳۷۲)

 خلاصہ یہ کہ ماحولیات بنی نوع انسانی کے لئے اللہ کی امانت ہیں۔ چنانچہ اس کا غلط استعمال اس کے بھروسے کا بڑا تمسخر ہے۔ ماحولیاتی بحران ہمارے وقت کے عظیم ترین چیلنج میں سے ہے۔ ہمارے سیارے کے تینوں کرّے (یعنی خلائے بسیط کرہئ آب، اور کرہئ حجری) بشری سرگرمیوں سے آلودہ ہوگئے ہیں، اور اس طرح فطری توازن کو متأثر کررہے ہیں۔اسلامی تعلیمات اور ہدایات ہماری رہنمائی کرتی ہیں کہ کرہئ ارضی کی حفاظت کے لئے ہم اپنے گرد وپیش کو صاف ستھرا رکھیں اور اپنے آس پاس زیادہ سے زیادہ پودے لگائیں اور اس روئے زمین کے فطری وسائل کوبرباد ہونے سے بچائیں کیونکہ تحفظ ماحولیات اسلام کا اہم ترین پہلوہے۔