اسلام اور موسیقی

Story by  ایم فریدی | Posted by  Shah Imran Hasan | Date 27-11-2021
اسلام اور موسیقی
اسلام اور موسیقی

 

 

awaz

 

      ڈاکٹر عبید الرحمن ندوی

   استاد دار العلوم ندوۃ العلماء،لکھنؤ

  اسلام دینِ فطرت ہے۔ اعتدال،توازن اور ہرچیزمیں وسطیت اس دین کا اصل جوہر ہے۔ ”خدائے عز وجل نے امتِ مسلمہ کو امتِ وسط بنایاہے۔ اور اس کے لئے اس کے تین امتیازی اوصاف عطافرمائے ہیں:۱یک عظمت، دوسرا کمال، تیسرا یہ اعتدال۔ یہ خداکے آخری نبی سیدنا حضرت محمد ﷺ کی امت ہے“۔ (امت مسلمہ از مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی صفحہ19) خدائے عزوجل کا ارشادہے:”وکذلک جعلناکم أمۃ وسطا لتکونوا شھداء علی الناس ویکون الرسول علیکم شھیدا“۔(اوراسی طرح ہم نے تم کو امت وسط   بنایاہے تاکہ تم لوگوں پر گواہ بنواور پیغمبرِ آخرالزماں تم پر گواہ بنیں)۔ (البقرہ: 143) یہی وجہ ہے کہ اسلام نے ہرچیز میں اعتدال، توازن اوروسطیت کو پسند کیاہے۔

چاہے مسئلہ روحانیت کا ہو یا مادیت کا۔ روحانیت کے بارے میں ارشادِ باری ہے:”ورھبانیۃ ابتدعوھا ما کتبناھا علیھم إلا ابتغاء رضوان اللہ فما رعوھا حق رعایتھا“۔(یہ رہبانیت جو انہوں نے خود اختیار کرلی ہے، ہم نے اس کو ان پر فرض نہیں کیاتھا، بجز اس غرض کے کہ وہ رضائے الٰہی طلب کریں، مگر وہ اس کی صحیح رعایت نہ کرسکے)۔اسی طرح مادیت کے بارے میں ارشادِ باری ہے:”أولئک کالأنعام بل ھم أضل“(سورۃ7، آیت 179)۔(یہ لوگ چوپایوں کی طرح بلکہ ان سے بھی گئے گزرے ہیں)۔

مناسب معلوم ہوتاہے کہ اصل مضمون پر روشنی ڈالنے سے پہلے لفظ احسان کی تشریح وتوضیح کردی جائے۔ احسان لفظ حُسن سے مشتق ہے۔ جس کے دیگر مشتقات یہ ہیں: أحسن، أحسنوا،أحسنتم، یحسنون، محسنین وغیرہ۔احسان کا مطلب عام طور پر نیکی یا بھلائی سے کیاجاتاہے۔ لیکن یہ ترجمہ بہت ہی محدوداور تنگ ہے۔ احسان کے اصطلاحی معنی کسی چیز کو خوبصورت بنانا۔ چنانچہ ارشادِ خداوندی ہے:”لقد خلقنا الإنسان فی أحسن تقویم“(ہم نے انسان کو حسین ترین سانچے میں ڈھال کر بنایاہے۔

یہی وجہ ہے کہ أن تعبدوا اللہ کأنک تراہ فان لم تکن تراہ فانہ یراک (بخاری) ”عبادتِ الٰہی اس حسن وخوبی سے کرو گویا تم خداکو دیکھ رہے ہوورنہ کم ازکم یہ تصور ہو کہ وہ تمہیں دیکھ رہاہے۔اسی طرح اس نماز کو احسانی نماز کہاجاتاہے جو بہت ہی خشوع وخضوع کے ساتھ ادا کی جاتی ہے۔ ایک مرتبہ ایک جنگ میں حضرت علیؓ کو دشمنانِ اسلام نے تیر ماراتھا اور وہ تیر کافی اندر تک پیوست ہوگیاتھا۔ اسے نکالنے میں حضرت علیؓکوشدید تکلیف ہورہی تھی۔ تو حضرت علیؓ نے اپنے ساتھیوں سے فرمایا کہ تم لوگ اس تیر کواس طرح نہیں نکال سکتے ہو۔ جب میں نمازمیں کھڑاہوجاؤں تو اس وقت تیر نکالنا۔ اس وقت آسانی کے ساتھ تیر کو نکال سکتے ہو۔

چنانچہ ان کے ساتھیوں نے ایسا ہی کیا۔ جب آپ نے نمازشروع کی توان لوگوں نے بآسانی تیر کونکال لیا۔ اس سے یہ پتہ چلتاہے کہ حضرت علیؓ کس قدر خشوع وخضوع کے ساتھ نماز اداکرتے تھے۔ نماز اصلًا اللہ تعالیٰ سے گفتگو کرنے کااور ہمکلام ہونے کا بہترین ذریعہ ہے۔چنانچہ اس طرح کی نمازکو احسانی نماز سے تعبیرکیاجاتاہے۔ ارشادِ خداوندی ہے:”الذی أحسن کل شیء خلقًا“۔(جس نے اپنی ہرپیداکردہ شے کو حسن بخشا)۔(32: 7)قرآن مزیدکہتاہے:”ربنا آتنا فی الدنیا حسنۃ وفی الآخرۃ حسنۃ“۔ (اے ہمارے رب ہمیں دنیاوآخرت دونوں میں حسنہ عطافرما)۔(2: 201) ”إن الحسنات یذھبن السیئات“۔(حسن کاریاں بدکاریوں کو دور کردیتی ہیں)۔(11: 14)”الذی خلق الموت والحیاۃ لیبلوکم أیکم أحسن عملا“۔(خدانے موت وحیات کو اس لئے پیداکیاہے کہ تمہیں آزمائے کہ تم میں بہترسے بہتر عمل کس کاہے)۔(67: 2) یہی وجہ ہے کہ قرآن کو احسن الحدیث فرمایا گیا:”اللہ نزّل أحسن الحدیث“۔(اللہ نے احسن حدیث (بہترین بات)نازل فرمائی)۔(39: 23)

جہاں تک موسیقی کا تعلق ہے تووہ بھی ایک قسم کا نغمہ اور ترنم ہے، جو تقاضائے بشری کے سماعی جمالیات میں سے ہے۔ قرآن کریم میں موسیقی کا ذکر بہ سلسلہ انعامات جنت ملتاہے۔ ارشاد خداوندی ہے: ”ادخلوا الجنۃ أنتم وأزواجکم تحبرون“۔(43: 70) (تم اور تمہارے جوڑے جنت میں جاؤ تمہیں نغمے سنائے جائیں گے)۔ مزیدارشادہے:”فأما الذین آمنوا وعملوا الصالحات فھم فی روضۃ یحبرون“۔(10: 15) (جولوگ ایمان لائے اور اس کے مطابق عمل کئے وہ چمن میں نغمے سن رہے ہوں گے)۔

یہ سب کو معلوم ہے ”إن اللہ جمیل یحب الجمال“۔ اللہ خوبصورت ہے اور خوبصورتی کو پسند کرتاہے۔ یہ بھی آتاہے:”إن اللہ طیب یحب الطیب نظیف یحب النظافۃ“۔(اللہ تعالیٰ خود پاکیزہ ہے اور پاکیزگی کو پسندفرماتاہے۔ ستھرا ہے اور ستھرائی کو عزیز رکھتاہے)۔ اسی طرح دیکھاجائے توقرآن کریم بھی جمال آفریں کتاب ہے اور حضورپاک ﷺ کی سیرت بھی قرآن کی بہترین تفسیر ہے، جیساکہ حضرت عائشہؓنے فرمایا”خلقہ القرآن“۔(حضورؐ کی سیرت قرآن ہے)۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ اللہ تعالیٰ کو قوت باصرہ کی طرح قوت سامعہ بھی پسند ہے۔ جس طرح انسان مختلف چیزوں کے مناظر کو دیکھ کر خوش ہوتے ہیں اسی طرح مختلف چیزوں کے بارے میں سن کر انہیں خوشی حاصل ہوتی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:”إن الذین یغضوں أصواتھم عندرسول اللہ أولئک الذین امتحن اللہ قلوبھم للتقویٰ“۔ (49: 3) (جولوگ اپنی آوازوں کو رسول اللہؐ کے سامنے پست رکھتے ہیں ان کے دلوں کو اللہ نے تقویٰ کے لئے امتحان میں ڈال دیاہے)۔

اس آیت کریمہ سے یہ بات بہ خوبی واضح ہوجاتی ہے کہ آواز کی نرمی، نغمگی، اور خوش الحانی کو اللہ تعالیٰ کس قدر پسندفرماتاہے۔ آواز کی کرختگی اور کثافت کو اللہ تعالیٰ یوں فرماتاہے: ”إن أنکر الأصوات لصوت الحمیر“۔(31: 19) (بدترین آواز گدھوں کا رینکنا ہے)۔

اس میں کوئی شک نہیں جہاں نرم اور اچھی آوازادب اور عاجزی کو ظاہر کرتی ہے وہیں حسن صوت اور نغمگی کا بھی پہلو رکھتی ہے۔ یہ امر قابل ذکر ہے کہ حضرت داؤد علیہ السلام کو جو کتاب ملی تھی اس کا نام ”زبور“ہے۔ ”وآتینا داؤد زبورًا“۔(4:163)اس کتاب کے پانچ حصے اورکل ایک سوپچاس ابواب ہیں۔اور یہ ساری کتاب منظوم ہے۔ اسی لئے ”زبور“ کو مزامیر داؤد بھی کہتے ہیں۔ مزامیر جمع مزمور جس کا صحیح معنیٰ گیت ہے۔چنانچہ خود زبور کا 66واں باب یوں شروع ہوتاہے:”میر مغنی کے لئے گیت یعنی مزمور اور 67ویں باب کا آغازیوں ہوتاہے:”میر مغنی کے لئے تاردار سازوں کے ساتھ مزمور یعنی گیت“۔

(اسلام اور موسیقی ازمولانا شاہ محمد جعفر پھلواروی صفحہ34-35) سیدمرتضیٰ زبیدی (اتحاف السادۃ جلد نمبر6صفحہ 471میں لکھتے ہیں:”قال ابن عباس إن داؤد علیہ السلام کان یقرأ الزبور بسبعین لحنا یلون فیھن ویقرأ قراء ۃ یطرب منھا المحموم“۔عبد اللہ بن عباسؓ کہتے ہیں کہ سیدنا داؤد زبورکو ستر لہجوں میں پڑھتے تھے اور ایسے نئے نئے انداز سے پڑھتے کہ محموم(بیمار)بھی مست ہوجاتاتھا۔ ربیع بنت معوذ سے روایت ہے کہ ”جب میری (ربیع بنت معوذکی)رخصتی ہوئی تو حضورؐ میرے غریب خانے پر رونق افروز ہوئے اور میرے ہی بستر پر بیٹھے۔

چند لڑکیاں دف بجاکر اپنے بدر میں شہید ہونے والے بزرگوں کی مدح سرائی کرنے لگیں۔ ایک نے کہیں یہ مصرع گایاکہ (ترجمہ) ”ہم میں ایک پیغمبر ایسا ہے جو یہ جانتاہے کہ کل کیاہوگا“۔ حضورﷺ نے فرمایا کہ نہ کہو، وہی کہو جو پہلے کہہ رہی تھیں (یعنی گارہی تھیں) (بخاری، ابو داؤد، ترمذی) مذکورہ بالا معروضات سے یہ بات واضح ہے کہ وہ موسیقی جس سے Sexual Urges یعنی جنسی اور شہوانی خواہشات نہ بھڑکیں اس کی اسلام اجازت دیتاہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ موسیقی کا اگر صحیح استعمال کیاجائے تو اس سے بھی دین کا بڑاکام ہوسکتاہے۔ آج یورپین اقوام نے (جودنیا میں علمی کامیابیوں اورتہذیب وتمدن کے مجسمے نظرآرہے ہیں) فلسفہ وسائنس کی ترقی کے ساتھ ساتھ فنِ موسیقی کو بھی سائنٹفک بنانے میں نمایاں ترقی کرلی ہے۔

اس کے ہرہر شعبے میں نئی نئی اصلاحوں اوراورایجادات سے کام لیکرفنِ موسیقی کوعلمی صورت میں دنیا کے سامنے پیش کردیا۔ خلاصہ یہ ہے کہ جوخیالات لوتھر اور افلاطون نے موسیقی کے متعلق ظاہرکئے ہیں، آج یورپ میں انہیں خیالات کوعملی جامہ پہنایا جارہاہے۔ پلوٹوکہتاہے: ”موسیقی اخلاقی قانون ہے۔ اس سے عالم میں ایک خاص قسم کی جان پیداہوجاتی ہے۔ موسیقی دماغ کی قوت بازو ہے۔ قوت تخیل کی بلندپروازی کی معین ومددگارہے۔ افسردگی وغمزدگی کومسرت سے بدل دیتی ہے۔“۔ لوتھر کی رائے یہ ہے: ”موسیقی پیغمبروں کا خاص ہنر ہے۔ یہی ایک ایساہنر ہے جوروح کی بے چینی کو اطمینان وسکون دے سکتاہے۔

منجملہ دیگر عظیم الشان تحائف کے جو قادر مطلق کی طرف سے انسان کوعطاہوئے ہیں، میوزک بھی ایک خاص تحفہ ہے“۔(فلفسہ موسیقی از حکیم عبد القوی، صفحہ34-35) ”انسان کے اندر دونوں جز بہ کمال پائے جاتے ہیں۔ عقل اور عشق۔ ایک جز عقلی(Rational) اور دوسرا جذباتی (Emotional)۔ ان دونوں کا صحیح امتزاج ہی اسلام ہے۔ اور ان دونوں کے توازن میں جتنا بگاڑ پیداہوتاہے، اسی تناسب سے اسلامی زندگی میں بھی بگاڑ پیداہوجاتاہے۔ قانون کا تعلق عقل سے ہے اور اخلاق کا جذبات سے۔ جذبات کی کارفرمائیاں عقل وقانون سے بالاتر ہوتی ہیں۔ عقل جذبات پر کنٹرول کرتی ہے اور عشق عقل میں حرکت پیداکرتاہے۔

عقل یہ تو بتادیتی ہے کہ فلاں بات قابلِ قبو ل ہے، اس لئے معقول ہے۔ لیکن اس کی طرف بڑھنے اور لپکنے کے لئے عقل کو حرکت دینا جذبہئ عشق ہے۔ عقل حیلہ گر جب قدم اٹھانے سے کتراتی ہے تو عشق ہی اسے مہمیزلگاتاہے اور جب عشق اپنی حدود سے آگے بڑھنے لگتاہے تو شہسوار عقل ہی زمام اعتدال کو حرکت دیتاہے۔ دونوں ایک دوسرے کے معاون ہیں او راسلام ان دونوں کو بے راہ روی سے روک کر ہم آہنگ کرتاہے۔ جب عقل وسیاست کی فراوانی سے جذبات واجبہ میں کمی آنے لگے تو اسلام جذبات سلیمہ کوابھارتاہے اور جب جذبات کی روعقل کو بھی بہاکرلے جانے لگے تو وہ ابھرتے ہوئے بے مقصد جذبات کو عقل سے دبادیتاہے“۔ (اسلام اور موسیقی صفحہ48)

اس موقع پر مناسب معلوم ہوتاہے کہ موسیقی کی بے شمارافادیت اور اس کی گوناگوں خوبیوں کے متعلق چند نامور سورماؤں کے آراء اور ان کے نقطہئ نظر کو بھی اس تحریر میں پیش کردیاجائے تاکہ قارئین کے سامنے یہ بات واضح ہوجائے کہ موسیقی صرف موسیقی ہی نہیں بلکہ بنی نوع انسان کے لئے آبِ حیات بھی ہے۔ امام ابوالفضل محمد طاہر مقدسی (448-507ھ) اکابر علمائے محدثین میں شمارہوتے ہیں۔ انہوں نے ایک کتاب ”جواز السماع والمزامیر“ لکھی ہے۔ ان کے متعلق امام عبد الوہاب شعرانی کی زبا ن سے سنئے: ”وقد تکلم العلماء فی السماع کثیرا ومال بعضھم إلی التحریم۔ وحملہ المحققون علی أن من داخلۃ علۃ من ھوس أو نفاق۔ وصنف الإمام الحافظ أبو الفضل محمد بن طاھر بن علی المقدسی فی ذلک کتابا ونقض أقوال من قال بالتحریم وجرح النقلۃ للحدیث الذی أوھم التحریم وذکر من جرحھم من الحفاظ واستدل علی إباحۃالسماع والیراع والدف والأوتار بالأحادیث الصحیحۃ وجعل الدف سنۃ“۔ لطائف المنن ج 2، ص: 106)

سماع کے بارے میں علماء کی بڑی بحثیں ہیں۔ ان میں سے بعض تحریم کے قائل ہیں لیکن محققین اس تحریم کو اس پر محمول کرتے ہیں کہ جب اس کے سننے سے کم عقلی یا نفاق جیسی بیماریاں پیداہوں۔ امام ابو الفضل محمد بن طاہر بن علی مقدسی محدث نے اس مسئلے پر ایک کتاب بھی لکھی ہے اور ان لوگوں کے اقوال کی تردید کی ہے جو اسے حرام کہتے ہیں بلکہ اس حدیث پر بھی جرح کی ہے جس سے حرمت مزامیر وغنا کا وہم پیداہوتاہے اور اس سلسلے میں ان محدثین کا بھی ذکر کیاہے جنہوں نے قائلین تحریم پر جرح کی ہے۔

پھر صحیح احادیث سے گانے، بانسری، دف، ستار وغیرہ کے جواز کو ثابت کیاہے بلکہ دف کو تو سنت بتایاہے۔ نواب سید صدیق حسن خاں ”دلیل الطالب علی أرجح المطالب“میں لکھتے ہیں: ”مفتی مغرب علامہ ابوالقاسم عیسیٰ بن ناجی السنوخی المالکی در شرح رسالہ ابی زید گفتہ:”قال الفاکھانی لم أعلم فی کتاب اللہ ولا فی سنۃ رسولہ حدیثًا صحیحًا صریحًا فی تحریم الملاھی وإنماھی ظواھر وعمومات یتأنس بھا لا أدلۃقطعیۃ“۔ ترجمہ: ”مفتی مغرب علامہ ابو القاسم عیسیٰ بن ناجی سنوخی مالکی رسالہ ابو زید کی شرح میں فرماتے ہیں کہ”فاکہانی کہتے ہیں قرآن میں مجھے کوئی نص اور سنت نبوی میں کوئی صحیح وصریح حدیث ایسی نہ ملی جس سے ملاہی کی حرمت ثابت ہو۔ ہاں کچھ ظاہری وعمومی باتیں ہیں جن میں سے کچھ اشارہ ملتاہے لیکن قطعی دلیلیں موجود نہیں“۔

آخری دور کے ایک بزرگ شاہ عبدا لعزیز محدث دہلوی بھی ہیں جن کا علم وفضل اور تدین کسی سے مخفی نہیں۔ فن موسیقی میں یہ امام غزالی، ملا جامی، امام رازی سے غالبًاآگے ہی تھے۔ دہلی کے موسیقاروں میں جب فنی اختلاف ہوتاتھا تو وہ تحقیق وتصدیق کے لئے شاہ صاحب ہی کے پاس آتے تھے۔دہریت اورخیال جیسے خشک پہلوؤں کے متعلق بھی ان کا فیصلہ سارے فنکار تسلیم کرتے تھے اور راگ راگنی کے متعلق بھی۔ مولانا حکیم عبدالحی حسنی رائے بریلوی لکھتے ہیں: ”کانت لہ مھارۃ فی الفروسیۃ والرمی والموسیقی“۔ (ان کو شہ سواری، تیراندازی اورموسیقی میں مہارت حاصل تھی۔ (ملاحظہ ہو نزہۃ الخواطر ج7، ص: 269)

اس کے بعد کے دورمیں خود ہمیں ذاتی طورپر ایسے بہت سے علماء وصوفیہ کا علم ہے جو باوجود اپنے مسلم تقوے اور علم وفضل کے فن موسیقی سے واقف ہونے کے علاوہ خود بھی شوق فرماتے رہے ہیں۔ ہمارے دور کے مشہور عالم ومصنف ومفسر علامہ جوہری طنطاوی نے بھی موسیقی پر ایک رسالہ لکھاہے جس میں ایک جملہ یہ بھی ہے: ”یہ پوری کائنات ایک موسیقی ہے“۔

مرزامظہرجان جاناں کہتے ہیں: ”السماع یورث الرقۃ الرقۃ تجلب الرحمۃ فالنتیجۃ السماع یجلب الرحمۃ“۔(ملفوظات مرزا مظہر جان جاناں)یعنی سماع رقت پیداکرتاہے اور رقت رحمت کو کھینچتی ہے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ سماع رحمت کو اپنی طرف کھینچتاہے۔ موسیقی سے علاج امراض: موسیقی کی جن مفید تاثیرات کامجمل ذکر امام غزالی نے کیاہے، اسے دوسرے حکماء اورفلاسفر بھی بیان کرچکے ہیں۔

مثلًا افلاطون کہتاہے: ”من حزن فلیستمع الأصوات الطیبۃ فإن النفس إذا حزنت خمد منھا نورھا فإذا سمعت مایطربھا اشتغل منھا ما خمد۔ إن ھذا العلم لم تضعہ الحکماء للتسلیۃ واللھو بل للمنافع الذاتیۃ ولذۃ الروح والروحانیۃ وبسط النفس وترویق الدم۔أمامن لیس لہ درایۃ فی ذلک فیعتقد أنہ ما وضع إلا للھو واللعب والترغیب فی شھوات الدنیا والغرور بأمانیھا۔(القدیم والحدیث ص: 209) ”غم زدہ آدمی کو اچھی آوازیں سننی چاہئیں کیونکہ جب دل پر غم طاری ہوتاہے توا س کی روشنی بجھ جاتی ہے۔ لہذٰا جب وہ وجد وکیف پیداکرنے والی چیزیں سنتاہے تو بجھاہوا جذبہ پھر بھڑک اٹھتاہے۔ حکماء نے اس علم کو محض طفل تسلی اور کھیل کے لئے ایجاد نہیں کتاتھا، بلکہ اس کا مقصد تھا داخلی منافع، روح اور روحانیت کی لذتوں کا حصول، قلبی انبساط اور گردش خون جس کو اس فن میں کوئی دخل نہیں ہوتا۔

وہ سمجھتاہے کہ موسیقی کا مقصد بجز اس کے کچھ نہیں کہ کھیل تماشہ ہو، دنیاکی خواہشوں کی ترغیب ہو اور دنیا کی آرزوؤں کے دھوکے میں پڑارہے۔ افلاطون کی ہدایت کے مطابق آج تک حکماء واطباء نے بیسیوں طرح کے مریضوں کا علاج موسیقی ہی کے ذریعے سے کیاہے۔ القدیم والحدیث کے مولف محمد کرد علی نے صفحہ 224پر ان امراض کی ایک فہرست دی ہے جن میں موسیقی کی امداد کامیاب ثابت ہوئی ہے۔

وہ امراض یہ ہیں: مرگی، سودا، اشتیاق وطن(Home Sickness) وہ جنون جو کسی صدمے کی وجہ سے ہو، دمہ، کم عقلی، عام جنون، کند ذہنی، نیند میں چلنا اور بولنا، کابوس، ہسٹریا، سکتہ، فالج، سرسام، دوسرے اعصاب امراض، مختلف قسم کے بخار، نقرس، عرق النساء، گٹھیا، طاعون، تخمہ، زہر سگ، زخم، زہرباد، سوئے ہضم، تنفس وغیرہ۔ اس کے بعد صاحب القدیم والحدیث لکھتے ہیں: ”فللموسیقی شأن فی الطب تستخدم للتمریض وکانت تتم فی القدیم معرفۃ فنون الشعر والموسیقی والطب لشخص واحد“۔ موسیقی طب کا ایک حصہ ہے جس سے امراض دور کئے جاتے ہیں۔

قدیم زمانے میں شاعری، موسیقی اورطب تینوں فنون کی واقفیت ایک شخص کے اندر ہونا کمال سمجھاجاتاتھا۔ بہت سے اقوال نقل کرنے کے بعد محمد کرد علی ص213میں دوسرے اخلاقی اور روحانی فوائد کا یوں ذکر کرتے ہیں: ”الألحان تصفی الأرواح وتبعث النشاط فی النفوس فبھا قدیجسر الجبان فی ساحۃ الوغیٰ ویکرم الشجیع ویرق الکثیف ویلین القاسی ویقوی الضعیف ویعدل الظالم ویعطف اللئیم...“۔ خوش آوازی روح میں صفائی اور دل میں کیف پیداکردیتی ہے۔ بعض اوقات اس کے طفیل بزدل میدان جنگ میں شیر بن جاتاہے، بخیل سخی ہوجاتاہے، کثیف میں لطافت اور سخت دل میں نرم دلی پیداہوجاتی ہے۔ کمزور قوی اور ظالم عادل بن جاتاہے اورکمینہ شریف ہوجاتاہے۔