حیدرآباد :چرچ کی طرز پر بنی 'ہسپانوی مسجد' ایک پرکشش تعمیری شاہکار

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | 2 Years ago
حیدرآباد :چرچ کی طرز پر بنی 'ہسپانوی مسجد' ایک پرکشش تعمیری شاہکار
حیدرآباد :چرچ کی طرز پر بنی 'ہسپانوی مسجد' ایک پرکشش تعمیری شاہکار

 

 

رتنا جی چوٹرانی،حیدرآباد

ریاست تلنگانہ کا دارالحکومت حیدرآباد مختلف حیثیتوں کی وجہ سے عالمی سطح پر معروف ہے،جہاں حیدرآباد میں متعدد تاریخی عمارتیں موجود ہیں تو وہیں یہاں تاریخی مساجد بھی ہیں۔ یہاں جو تاریخی مساجد ہیں، ان میں سے ایک شہر کے علاقہ بیگم پیٹ کی 'جامع مسجد' ہے۔ اس مسجد کو ہسپانوی مسجد، جامع مسجد  اور مسجد اقبال الدولہ وغیرہ بھی کہا جاتا ہے۔

یہ مسجد ہندوستان میں فن تعمیر کے لحاظ سے بالکل منفرد ہے۔ اس کی سب اہم اور امتیازی خصوصیت یہ ہے کہ اس مسجد میں دیگر قدیم مسجدوں کی طرح میناراور گنبد نہیں ہیں،بلکہ اس کی جگہ پر گرجا گھر(چرچ) جیسا مینار بنا ہوا ہے۔ اس لیے یہ مسجد ظاہری طور پر گرجا گھر جیسی لگتی ہے۔اس ہسپانوی مسجد کا بیرونی اور اندرونی حصہ اسپین میں واقع قرطبہ کی کیتھیڈرل مسجد اور کرناٹک کی جامع مسجد( گلبرگہ) سے ملتا جلتا ہے۔اس میں شک نہیں کہ یہ فن تعمیر کا شاہکار ہے۔

اس مسجد کے تعلق سے فیض خان نے کئی اہم باتیں بتائیں۔ فیض خان نواب وقار العمربہادر کے خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ ہسپانوی مسجد اور بیگم پیٹ کی کہانی 1890 کی دہائی کے وسط کی ہے۔ یہ1896کا زمانہ تھاجب کہ حیدرآباد کے وزیر اعظم اور امیر پائیگاہ نواب وقارالعمر بہادر اپنے ذریعہ تعمیر کردہ محل 'فلک نما'میں رہاکرتے تھے۔

انہیں سکندرآباد ضلع کی ایک چھاؤنی میں سات محلوں کی تعمیر کا خیال آیا۔انہوں نے اس منصوبے کے لیے اپنے گاؤں بیگم پیٹ کو منتخب کیا۔ فیض خان نے بتایا کہ پائیگاہ یا بیگم پیٹ محل پرکام کا آغاز 1897 میں شروع ہوا تھا۔ بیگم پیٹ محل میں ایک نجی ریلوے اسٹیشن بنایا گیا تھا۔ یہاں سے نواب وقارالعمربہادر ٹرین پر سوار ہوکر پہاڑی مقامات مثلاً وقار آباد اور آنندگیری وغیرہ کی سیاحت کو جایا کرتے تھے۔

وقارالعمر بہادر نےجو محلات تعمیر کرائے تھے، وہ تمام محل ایک دوسرے سے مختلف تھے۔ ان میں سے کچھ پر یورپی طرز تعمیر کا غلبہ تھا، تو کچھ پر گوتھک، رومن، مغل اور دکنی وغیرہ کا غلبہ۔ حیدرآباد میں واقع موجودہ امریکی قونصل خانہ بھی ان محلوں میں سے ایک ہے۔ جب سن 1882 میں نواب وقار العمر یورپ کے سفر پر روانہ ہوئے تو ملکہ وکٹوریہ  سمیت دیگر یورپی شاہی خاندانوں نے ان کا شاہی استقبال کیا، وہ وہاں کے ذاتی مہمان بنے تھے۔

یورپ کے سفرسے واپسی پر انہوں نے ایک بڑے پراجیکٹ پر کام کرنے کا فیصلہ کیا۔انہوں نے پریوں کی کہانیوں جیسا ایک خوبصورت سا محل' فلک نما' تعمیرکرایا۔ اس قسم کا محل حیدرآباد میں اس سے پہلے کبھی تعمیر نہیں کیا گیا تھا۔ نواب اپنے سفر کے دوران اسپین کی طرز تعمیر سے بھی متاثر ہوئے تھے اورپھر انہوں نے ہسپانوی طرز کی ایک مسجد بنانے کا فیصلہ کیا۔

اس کا فن تعمیر حیدرآباد کے لیے بالکل نیا تھا کیونکہ اسے سلجوق فن تعمیر پر بنایا گیا تھا، جو اسپین میں عثمانیوں سے پہلے موجود تھا۔ نیز اس کی تعمیرات اناطولیہ کے میدانی علاقوں سے بھی متاثر نظر آتی ہے۔ وہیں مسجد کے اندر ہمیں شمال مغربی افریقی تعمیراتی فن بھی نظر آتا ہے، جہاں ایک ساتھ ہسپانوی، تیونس اور مراکش کے فن تعمیرکی جھلک بھی دکھائی دیتی ہے،جسے مغربی اسلامی فن تعمیر کہا جاتا ہے۔

awazurdu

مسجد اقبال الدولہ، بیگم پیٹ 

اندر کی محرابیں ہسپانوی اسلامی فن تعمیر کی ہیں، جہاں شمالی افریقہ کے فن تعمیر کی منظر کشی ہے۔ فیض خان کہتے ہیں کہ یہ خصوصیت مسجد قرطبہ اور افریقہ کی دیگر مساجد میں دکھائی دیتی ہیں۔ ایسی مساجد مشرق وسطیٰ میں بھی نظر نہیں آتیں۔ دیواروں پرعربی خطاطی کا اعلیٰ نمونہ ہے، جہاں قرآنی آیات تحریر کردہ ہیں۔

فیض خان نے دعویٰ کیا ہے کہ ہسپانوی مسجد کا ڈیزائن اگرچہ قرطبہ مسجد جیسا ہے مگر اس سے مختلف ہے۔ ایسی مساجد مشرق وسطیٰ میں بھی نظر نہیں آتیں۔ دیواروں پرقرآنی آیات خط کوفی کے انداز میں لکھی گئی ہے۔

مسجد کے اوپر پیاز کی شکل کا گنبد نہیں ہے،جواب ’اسلامی‘ تعمیر کا علامتی نشان بن گیا ہے بلکہ یہ گرجا گھر جیسا ہے۔ اس مسجد میں داخلہ ایک پورچ(porch) کی شکل میں ہوتا ہے۔اندرونی حصے میں فرانسیسی کھڑکیاں لگی ہوئی ہیں، جس کے اوپر بیضوی نوک دار محرابیں ہیں، جنہیں مسجد قرطبہ کے انداز میں پانچ خلیجوں(bays) میں بنایا گیا ہے۔

اس نے حال ہی میں غیر معمولی آرکیٹیکچرل انداز کے لیے انٹیک ہیریٹیج ایوارڈ(INTACH Heritage Award) جیتا ہے۔ اس مسجد کی طرز تعمیر پر دکنی اثرات(Deccani influences) بھی دکھائی دیتے ہیں۔

فیض خان کہتے ہیں کہ جب میں تین سال کا تھا جب میں نے پہلی دفعہ ہسپانوی مسجد کو دیکھا تھا، یہ ملک کے اندر تعمیراتی خوبصورتی کے لحاظ سے اپنی مثال آپ ہے۔

خیال رہے کہ ابتداً یہ مسجد بیگم پیٹ یا پائیگاہ محل کے احاطے میں واقع تھی۔ امرا اور محل کے کارکنوں کے علاوہ باہر کے لوگ بھی یہاں نماز ادا کیا کرتے تھے۔ یہ سفید سنگ مرمر کی بنی ہوئی ہے، ایک زمانہ میں اس کے چاروں طرف سرسبزو شاداب  مگرکھلی جگہ ہوا کرتی تھی، جہاں مصلیوں کو روحانیت اور سکون کا احساس ہوتا

تھا۔

awazurdu

فیض خان 


انہوں نے بتایا کہ ایک زمانہ میں بیگم پیٹ کا علاقہ ٹریفک سے بالکل پاک تھا جہاں صرف چند عمارتیں ہی اسکائی لائن پر بنی ہوئی تھیں۔ اس وقت یہ اتنا خالی تھا کہ پریڈ گراؤنڈ سے مسجد کے مینار نظر آتے تھے۔ اس سے قریب قدیم کلاویری ندی بہتی تھی۔کلاوری ندی کے پار ایک پل تھا جسے پائیگاہ انجینئرز نے نجی بیگم پیٹ ریلوے لائن سے جوڑنے کے لیے بنایا تھا جو ندی کے دوسری طرف تھا اور آج بھی یہ وہ پل موجود ہے۔ یہ حیدرآباد اور سکندرآباد کے درمیان میں واقع تھا۔

awazurdu

فیض خان افسردگی کے ساتھ کہتے ہیں کہ اب کلاوری ندی آلودہ ہوچکی ہے، جو کہ اب  نالے کے طور پراستعمال کی جا رہی ہے۔ بیگم پیٹ کے سات محلات 1600 ایکڑ پر پھیلے ہوئے ہیں جس کا داخلی دروازہ لکڑی کا بنا ہوا ہے، جو کافی اونچا ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ مسجد کا راستہ محل کے احاطے کے اندر سےتھا، وہ اپنےاہل خانہ کے ساتھ مسجد جایا کرتے تھے۔ اس وقت مسجد کا رنگ سفید تھا۔

مانسون کے زمانہ میں مسجد کے باہر پھیلی ہوئی اراضی سرسبز و شاداب ہوتی تھی،جو دکھنے میں بہت خوبصورت لگتی تھی۔ان دنوں اس کے پیش امام خاندانی ہوا کرتے تھے۔اب وقت کے ساتھ بہت سی چیزیں بدل گئی ہیں۔