ہولی: عقائد سے بالاتر، انسانیت کے رنگوں میں

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 18-03-2022
ہولی: عقائد سے بالاتر، انسانیت کے رنگوں میں
ہولی: عقائد سے بالاتر، انسانیت کے رنگوں میں

 

 

راجيش کمار اوڈ(بلوچستان)

خدا کرے ہرسال چاند بن کے آئے

دن کا اجالا شان بن کے آئے

دور نہ ہو آپ کے چہرے سے ہنسی

یہ ہولی کا تہوار ایسا مہمان بن کے آئے

جی ہاں آج ہولی ہے، جسے بعض لوگ رنگوں کا تہوار بھی کہا کرتے ہیں۔ چنانچہ یہ تہوارآج پوری دنیا میں ہندوؤں کے مذہبی تہوار کے طور پر بڑے جوش و خروش سے منایا جا رہا ہے۔

لیکن کیا یہ کہنا مناسب ہوگا کہ یہ صرف ہندوؤں کا تہوار ہے؟ جی نہیں میں نہیں سمجھتا کہ یہ تہوار صرف ہندوؤں کا تہوار ہے۔ یہ تو محبت کا تہوار ہے، انسانیت کا تہوار ہے۔ یہ تہوار تو اس پیار، خلوص اور رواداری کا تہوار ہے جس کی بنا پر ہم آج بھی جڑے ہوئے ہیں۔ جب کہ یہ بھی پتہ ہوتے ہوئے کہ ہمارے مذہب اورعقائد الگ ہیں۔

جس کی مثال آپ کو سندھ کے ان دو زيادہ اقلیتی اکثریت والے اضلاع عمرکوٹ اور تھرپارکر میں مل سکتی ہے۔ جہاں مختلف مذاہب اور فرقوں سے تعلق رکھنے والے لوگ ایک ساتھ ہو کر ہولی کے رنگوں میں گھل مل جاتے ہیں، رنگ لگاتے ہیں، مٹھائیاں کھلاتے ہیں اور ایک دوسرے کو مبارک باد دیتے ہیں اور جناب یہی جھلک آپ کو کرسمس اور عید کے دنوں میں بھی دیکھنے کو ملے گی، چاہے پھروہ قربانی والی عید ہو یا پھر میٹھی۔

یہی کہ وہ ایک دن کے لیے ہر چیزمذہب، ذات، رنگ ، نسل سے بالاتر ہوکر ان لال، پیلےاور گلابی رنگوں کی طرح آپس میں مل جاتے ہیں اور دنیا کو دکھاتے کہ ہم سب ایک ہیں۔

ہاں اگرچہ ایسا نہیں ہوتا تو یہ دن ہم آہنگی کا دن نہیں ہوتا، جس کی اہمیت کا اندازہ اس ستارہویں، آٹھارہویں صدی میں اردو اور فارسی میں ہونے والی میر تقی میر،خواجہ حیدرعلی آتش اور انشا کی شاعری کو پڑھ کر لگایا جا سکتا ہے، جس میں انہوں نے ہولی کا ذکر کیا ہے۔

جیسے جشن ہولی کی مناسبت سے ایک جگہ میر نے لکھا ہے

آؤ ساتھی بہار پھر آئی

ہولی میں کتنی شادیاں لائی

جس طرح دیکھو مارکا سا ہے

شہر ہے یا کوئی کوئی تماشا ہے

 تھال بھر بھر ابير لاتے ہیں

گل کی پتی ملا اڑاتے ہیں

اور آگے خواجہ آتش نے بھی ہولی کی آتشزدگی میں لکھا

ہولی شہیدِ ناز کے خون سے بھی کھیلیے

رنگ اس میں ہے، گلال کا بوُ ہے ابیر کی

اور ہاں اگرچہ ہولی مذہبی دن ہوتا تو مغل بادشاہ جہانگیر اسے "عید ای گلابی” کا نام نہ دیتا اور بابا بلھے شاہ بھی یہ نہیں کہتے

ہولی ری کھیلوں گی، کھا کر بسم اللہ

نام نبی کے رتن چا رہی، بوند پڑی الھآ

رنگ رنگیلی اوہی کھاوی

جو سکھِی ہوئے فنا فی اللہ

تو جناب یہ تہوار خوشیوں کا تہوار ہے۔ یہ تہوار تو جیت ہے ان انتہا پسند لوگوں کے خلاف جو معصوم انسانوں کو استعمال کر کے نفرتیں پیدا کرتے ہیں اور کہتے ہیں ہمارے عقیدے پہ عمل کرو. حالاں کہ واضھ حکم ہے کہ، لَكُمْ دِينُكُمْ وَلِيَ دِينِ (تمہارا دین تم سے، میرا دن مجھ سے). ہم سب جانتے ہیں کہ ہمارا مذہب کیا ہے، ہم اس کو کیسے محفوظ رکھیں اور کیسے اس کے پیغامات پہ عمل کریں، یہ آپ نہ سکھائیں تو بہتر ہے کیوں کہ ہمارے مذاہب نے اشرف المخلوقات سے محبت کرنا سکھایا ہے۔ اورمیں سمجھتا ہوں یہی وہ محبت اور امن کا پیغام ہے جسے ہمارے برصغیر کے اولیاؤں، بزرگوں اور صوفیائے کرام نے پھیلایا اور آگاہ کیا کہ سب سے پہلے انسانیت اور اس سے محبت۔

اسی انسانیت کی خاطر سب ایک ہوکر دکھائیں کہ پاکستان میں ایسے بھی لاکھوں لوگ ہیں جو رواداری اور ہم آہنگی کی پاسداری کرتے ہیں۔ کیوں کہ یہی سماجی روایتیں اور قدریں ہیں جو ہم کو قریب لے آتی ہیں۔

 تو آؤ، تم بھی جھومو مستی میں، ہم بھی جھومیں مستی میں

شور ہوا ساری بستی میں، جھومیں سب ہولی کی بستی میں

مست مست یہ مستی رہیں، سدا آپ کی کشتی میں

بیت جائیں گی ہولی، پھر بھی بھیگی مستی میں