لکھنؤ کا ہنومان مندر:جو نواب شجاع الدولہ کی اہلیہ کا تعمیر کردہ ہے۔

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 12-02-2021
لکھنؤ کا ہنومان مندر نواب واجد علی شاہ کی دادی نے تعمیر کروایا تھا
لکھنؤ کا ہنومان مندر نواب واجد علی شاہ کی دادی نے تعمیر کروایا تھا

 

لکھنؤ نہ صرف اپنی ثقافت بلکہ گنگا جمنی  تہذیب کے لئے بھی مشہور ہے۔ شہر کی پہچان ہندو مسلم اتحاد کی علامت کے طور پر ہوتی ہے ۔ علی گنج میں قائم پرانا ہنومان مندر بھی اسی علامت کو ظاہر کرتا ہے۔ 1792 اور 1802 کے عرصے میں اس وقت کے نواب شجاع الدولہ کی اہلیہ عالیہ بیگم اولاد کی نعمت سے محروم رہیں ۔ اس وجہ سے وہ اکثر افسردہ رہا کرتی تھیں- ایک دن بیگم کے باغبان نے مشورہ دیا کہ آپ اسلام باڑی کی زیارت کریں۔ بیگم صاحبہ وہاں گئیں جس کے بعد ان کی خواہش پوری ہوگئ۔ ایک دن خواب میں بیگم نے بجرنگ بلی کو دیکھا- انہوں نے کہا کہ بجرنگ بلی کا بت اسلام باڑی میں دفن ہے۔

اس خواب کے بعد بیگم صاحبہ نے اس ٹیلے کو کھودا تو اس میں ہنومان جی کا بت نمودار ہوا ۔ بیگم صاحبہ بت کو ہاتھی پر لے کر گومتی کے دوسرے کنارے جانا چاہتی تھیں- اس کے بعد بت کو مزید مزین کر کے اسے ہاتھی پر رکھا گیا۔ اسے آصف الدولہ کے بڑے امام باڑے کے قریب مندر کے قیام کی غرض سے لے جایا جانے لگا۔ لیکن ہاتھی موجودہ علی گنج روڈ (جو اس وقت راہداری تھا) پر رک گیا اور تمام کوششوں کے بعد بھی حرکت میں نہیں آیا۔ اس کے بعد ایک سادھو نے بیگم سے کہا کہ ہنومان جی گومتی سے آگے نہیں جانا چاہتے کیونکہ یہ لکشمن کا علاقہ ہے۔ پھر بیگم صاحبہ نے اس جگہ پر بت نصب کیا اور ایک مندر بنوایا اورسادھو کو سرکاری اخراجات پر مہنت مقرر کیا۔

لکھنؤ کا یہ مندر قومی ہم آہنگی کی علامت ہے جس کی تعمیرایک مسلم حکمران کے ہاتھوں ہوئی ہے- یہ مندر اس حقیقت کا غماز ہے کہ ہندوستانی تہذیب ایک ملی جلی تہذیبوں کا حسین امتزاج ہے جس میں تخریب پیدا کرنے والے اصل میں اس کے تانے بانے کو زیادہ سے زیادہ مستحکم کر رہے ہیں۔