فتحپوری مسجد ۔ گرتی چھتیں اور کمزور میناروں سے مستقبل پر سوالیہ نشان

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 11-10-2021
فتحپوری مسجد
فتحپوری مسجد

 

 

 آواز دی وائس : منصور الدین فریدی

راجدھانی یعنی دہلی میں لال قلعہ ،چاندنی چوک اور فتحپوری مسجد کی شکل میں تاریخی مقامات کی تگڑی ایک زمانہ سے قومی اور بین الاقوامی سیاحوں کے لیے توجہ کا مرکز رہی ہے۔ لال قلعہ تو ہمیشہ سے سینہ تان کر کھڑا ہے،اس کی فصیل پر ترنگا اس کی شان ہے۔ چاندنی چوک کو بھی حکومت نے چار چاند لگا دئیے ہیں ،لیکن تیسرا تاریخی مقام یعنی چا رسو سالہ فتحپوری مسجداپنی خستہ حالی کے سبب اب توجہ کی طلب گار ہے۔ کیونکہ اب اس کی خستہ حالی کمزور پلاسٹر اور پتھروں کی شکل میں دیواروں اور چھتوں کو چھوڑ رہی ہے۔

فرش سے مینار تک مرمت کی طلبگار فتحپوری مسجد کے کئی حصے ناقابل استعمال ہوگئے ہیں اور کسی بڑے حادثہ کا پیش خیمہ بن سکتے ہیں ۔جس کی ایک جھلک ہفتہ کو نظر آئی جب مسجد میں چھت سے پلاسٹر اور پتھر گرے ۔جس کے بعد مسجد کے ایک حصہ کو بند کرنا پڑ گیا۔ در اصل ابتک تو مشرقی دالان اور وضو خانہ ہی مخدوش تھا لیکن اب اصل مسجد میں مہراب کے حصہ گر رہے ہیں ۔ 

فتحپوری مسجد کے امام مولانا مفتی محمد مکرم احمد نے آواز دی وائس کو بتایا کہ ۔‘‘ اگر اس وقت گرتی ہوئی عمارت کو روکا نہیں گیا تو نشان بھی نہیں بچے گا۔کیونکہ پوری عمارت ہی بوسیدہ ہوچکی ہے،مینار کمزور ہوچکے ہیں ،متعدد کمروں کی چھتیں خستہ حال ہیں اور وضو خانہ کی حالت تو ناقابل بیان ہے۔’’مسجد کے ستون بھی کمزور پڑ رہے ہیں ،مہراب کے حصہ بھی پلاسٹر سے محروم نظر آرہے ہیں کیونکہ پلاسٹر گر چکا ہے۔ پوری عمارت بوسیدہ ہوچکی ہے۔

دراصل 1645-50 میں بننے والی مسجد کی منظوری شاہ جہاں کی بیویوں میں سے ایک فتح پوری بیگم نے دی تھی۔ جسے سرخ ریت کے پتھر سے تعمیر کیا گیا تھا، مرکزی نمازی ہال ، جس میں سات محرابی دروازے ہیں ، ایک گنبد ہے اور دو بڑے میناروں سے جڑا ہوا ہے۔

awazurdu

فتحپوری مسجد  کے اندر چھت سے گرے پتھر اور پلاسٹر

ابتک کیسے بچی ہے مسجد

 فتحپوری مسجد کی خستہ حالی کے بارے میں مولانا مفتی مکرم کہتے ہیں کہ اگر آج تک مسجد میں نماز ادا کی جارہی ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ مقامی سطح پر صاحب حیثیت لوگوں کا جذبہ ہے جنہوں نے بہت ہی نازک مواقع پر مسجد کو سہارا دیا ۔اس کی شکل کو برقرار رکھنے کے لیے دل کھول کر مدد کی۔ انہوں نے کہا کہ بلی ماران کے حاجی محمد فاروق نے 1972 میں مسجد میں سنگ مر مر لگوایا تھا۔اس کے بعد بھی حاجی فیروز بیلال ،حاجی محمد سلیم ،حاجی سلطان بخش جیسے نام ہیں جنہوں نے مسجد کو نئی زندگی بخشنے میں اہم کردار ادا کیا۔ بات واضح ہے کہ یہ ذاتی کوشش ہے جس نے ابتک فتحپوری مسجد کو محفوظ رکھا ہے۔

کس کی ذمہ داری ہے

مولانا مفتی مکرم کا کہنا ہے کہ یوں تو یہ مسجد دہلی وقف بورڈ کی ذمہ داری ہے جس نے 16 ماہ سے مسجد کے ملازمین کو تنخواہیں نہیں دی ہیں ۔لیکن ہمارا مقصد ہے کہ سب کی تو جہ اس کی جانب متوجہ کرائی جائے ۔مرمت کا کام خواہ مرکزی حکومت کرائے یا دہلی حکومت یا وقف بورڈ ۔اس وقت اہم یہ ہے کہ مسجد کو بچایا جائے۔ابتک جو ہوا ہے وہ صرف مقامی صاحب حیثیت افراد کے تعاون سے ہی ہوا تھا مگر اب حالات ایسے ہیں کہ بڑی سطح پر مرمت کا کام ہو ۔

مولانا مفتی مکرم نے کہا کہ فتحپوری مسجد دہلی وقف بورڈ کے تحت ہے،مگر میں پچھلے تیس سال سے دیکھ رہا ہوں کہ دیکھ ریکھ یا مرمت کے نام پر کیا ہوا اور کیا نہیں۔ فتحپوری مسجد کی دکانوں سے ہورہی آمدنی بھی دہلی وقف بورڈ کو مل رہی ہے حالانکہ مسجد سے ہونے والی آمدنی اسی مسجد میں خرچ ہونی چاہیے لیکن اس کا ایک حصہ بھی نہیں لگ رہا ہے۔

مولانا مفتی مکرم نے کہا کہ ہم تو چاہتے ہیں کہ کوئی بھی مرمت کرائے لیکن کوئی آگے تو آئے۔مسجد کی حالت دیکھیں تو سمجھ میں آجائے گا کہ کس تیزی کے ساتھ بنیادوں سے میناروں تک خطرہ بڑھ رہا ہے 

awazurdu

خستہ حالی بیان کرتی تصاویر

سب کو ہے خبر 

 مسجد کی خستہ حالی کے  بارے میں مولانا مفتی مکرم نے کہا کہ ایسا نہیں کہ یہ سب کچھ راتوں رات ہوگیا ہےبرسوں سے بے توجہی نے آج مسجد کو اس مقام پر پہنچا دیا ہے۔دہلی وقف بورڈ کو اس بارے میں سب کچھ معلوم ہے ۔ہم عرصہ دراز سے وقف بورڈ جو کہ مسجد کا نگہبان ہے ،ان حالات سے آگاہ کررہے ہیں ۔اس کے ساتھ  حکام کو لکھ رہے ہیں لیکن کچھ نہیں ہوا۔ مرکزی وزیر برائے اقلیتی امور مختار عباس نقوی کو بھی اس کی خستہ حالی سے آگاہ کیا گیا۔  ، لیکن انہوں نے مدد نہیں کی۔ اگرچہ صدر ، نائب صدور اور وزیر سمیت کئی اعلیٰ شخصیات موقعوں پر مسجد کا دورہ کرتے رہتے ہیں۔ اس کے باوجود کوئی اس پر توجہ نہیں دے رہا ہے۔ 

آخری بار مرمت

 مولانا مفتی مکرم کے مطابق 2012 میں من موہن سنگھ حکومت کے دور میں حکومت نے سوامی ویویکانند ٹرسٹ کو 150 کروڑ روپئے الاٹ کئے تھے جن میں سے 6 کروڑ روپئے میں فتحپوری مسجد کی مرمت کا کام محکمہ آثار قدیمہ نے کیا تھا ۔اس وقت دہلی اے ایس آئی کے کرتا دھرتا کے کے محمد تھے،وہی آئے تھے۔لیکن مسجد میں کیا کام ہوا اس بارے میں کچھ مشکل ہے کیونکہ ٹھیکدار کچھ دنوں تک ٹھوک پیٹھ کر چلا گیا تھا۔ اتنا ضرور تھا کہ لوہے کی جالیوں کو ہٹا کر سمینٹ کی نقش کاری والی جالیاں لگا دی گئی تھیں ۔

 ملازمین کا استحصال

مولانا مفتی مکرم کہتے ہیں کہ پچھلے سولہ ماہ سے مسجد کے ملازمین کو تنخواہیں نہیں ملی ہیں ،دہلی وقف بورڈ تخواہیں دیتا ہے جوکہ دہلی سرکار کا حصہ ہے۔ کیجریوال سرکار نے اپنی پہلی میعاد میں تو تنخواہیں ادا کی تھیں لیکن اب دوسری بار حکومت بننے کے بعد یہ سلسلہ کیوں تھم گیا ؟وہ کہتے ہیں کہ یہ ملازمین بغیر چھٹی کے کام کرتے ہیں جو کہ بنیادی سہولیات اور مراعات سے محروم ہیں ۔