دھرم سنسد کے جواب میں دھرم سنسد ۔ ناقابل قبول :علما اور دانشور

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 02-01-2022
دھرم سنسد کے جواب میں دھرم سنسد ۔۔ ایک ناقابل قبول :علما اور دانشور
دھرم سنسد کے جواب میں دھرم سنسد ۔۔ ایک ناقابل قبول :علما اور دانشور

 


آواز دی وائس : منصور الدین فریدی

دھرم سنسد کے جواب میں دھرم سنسد ۔۔ ایک ناقابل قبول قدم ہے ۔

ایسا کرنا ملک کےماحول کو خراب کرنے کی کوشیشوں کو کامیاب کرنے مترادف ہوگا۔

کسی شرارت کا جواب شرارت سے نہیں دیا جاسکتا ہے۔

اگر کسی نے مسلمانوں کی نسل کشی کا نعرہ دیا ہے تو اس کے خلاف  بڑی تعداد میں غیر مسلم کھڑے ہوئے ہیں ۔ 

ملک سیکولر ہے اور ننانوے فیصد لوگ گنگا جمنی تہذیب کے قائل ہیں۔

 شرپسند وں کو ان کی زبان میں جواب نہیں مناسب نہیں ۔

اگر کوئی لڑائی لڑی جاسکتی ہے تو وہ قانونی ہے۔ اگر کسی کو منظم کرنا ہی ہے تو وکلا کو متحد کیا جائےنہ کہ علما کو۔ 

یہ ہیں ملک کے ممتازعلما اور دانشور حضرات کے تاثرات اور ردعمل۔ -جن کا اظہارہریدوارمیں متنازعہ دھرم سنسد کے جواب میں بریلی کے مولانا توقیر رضا خان کی جوابی ’دھرم سنسد ‘کے اعلان پر کیا گیا ہے۔ اکثریت اس بات کو مانتی ہے کہ ہریدوار میں جو کچھ ہوا اس کو ہوا دینے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ اس کی نہ صرف علما مسلمانوں بلکہ غیر مسلموں نے بھی مذمت کی ہے ۔یہی نہیں اس سلسلے میں مقدمہ بھی درج کیا جاچکا ہے۔علما اور دانشور مانتے ہیں مولانا توقیر رضا خان کا غصہ جائز ہے لیکن احتجاج کا طریقہ مناسب نہیں ہے۔ ان کے اس اعلان پر ملک کے ممتازعلما نے اپنی رائے کا اظہار کیا ہے ،جن میں کسی نے انہیں غلط ٹھرایا ہے تو کسی نے محتاط رہنے کا مشورہ دیا ہے کیونکہ ملک کا ماحول خراب کرنے کی سازش کی جارہی ہے۔ 

- راجدھانی میں مسجد فتح پوری کے امام مولانا مفتی محمد مکرم احمد نے کہا کہ ہر کسی کا احتجاج کرنے کا اپنا اپنا انداز ہوتا ہے۔ ہم نے آپ نے اس کی انفرادی طور پر مذمت کی۔توقیر رضا خان نے بھی اپنی سوچ اور فکر کی بنیاد پر یہ قدم اٹھایا ہے۔ میں ان کے اس پروگرام کی حمایت تو نہیں کروں گا۔میں نے نماز جمعہ کے خطبہ میں کہا تھا کہ دھرم سنسد میں جو کچھ ہوا اس کے خلاف حکومت اور عدالت کو خود کوئی نہ کوئی قدم اٹھانا چاہیے تھا۔ توقیر رضا خان جو کررہے ہیں ان کا اپنا انداز ہے جو میری نظرمیں ایک مثبت جواب ہے۔میں سمجھتا ہوں کہ ان کے احتجاج کا مقصد یہ پیغام دینا ہے کہ کسی کے نعروں سے ہم ڈرتے نہیں ہیں۔انہوں نے مزید کہا کہ مسئلہ یہ ہے کہ مسلمان کرے تو کیا کرے؟

مفتی مکرم نے کہا کہ یہ اس چمن کو آگ لگانے کی کوشش ہے۔ ملک کے ماحول کو بگاڑنے کی سازش ہے ،اس کے لیے حکومت کو روز اول ہی  ایسی طاقتوں کے خلاف قدم اٹھانا چاہیے تھا۔انہوں نے کہا کہ  اصل مسئلہ یہ ہے کہ ایسی جماعتوں اور لیڈروں کی پشت پناہی بہت طاقتور ہے جس کے سبب ان کے خلاف کوئی سخت کارروائی نہیں کی جاسکتی ہے۔ 

ممتاز اسلامی اسکالر پدم شری پروفیسر اختر الواسع نےکہا کہ ہریدوار سے سون بھدر تک جو کچھ ہوا وہ انتہائی شرمناک ہے،تکلیف دہ ہے۔ مگر بات مسلمانوں کی نہیں بلکہ ہندوستان کی ہے جس کی تصویر بگاڑنے کی کوشش کی جارہی ہے۔اس سے نقصان ملک کا ہونا ہے۔جب تشدد کے ماحول کے ساتھ نفرت کا کاروبار ہوتا ہے اس کا اثر ہر زندگی کے ہر شعبہ پر پڑتا ہے۔ ترقی کی رفتار تھم جاتی ہے بلکہ سیاحت پر اثر پڑتا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ مولانا توقیر رضا خان کا دھرم سنسد کے خلاف غم وغصہ جائز ہے لیکن مناسب نہیں ۔ اس قسم کے اعلانات سے گریز کرنا چاہیے کیونکہ فسادی چاہتے ہیں کہ مسلمان اشتعال میں آئیں اور ان کا مقصد پورا ہو۔اگر مسلمانوں نے اس طرح جوابی کارروائی کی تو شرپسند وں کی سازش کامیاب ہوجائے گی۔بہتر ہوگا کہ جس طرح دیگر مسلم تنظیمیں بشمول جمیعت علما ہند قانونی جنگ لڑ رہی ہے اسی انداز میں مورچہ بندی کی جائے۔

قانون سے رجوع کرنا زیادہ مفید ثابت ہوگا۔کیونکہ اس کے خلاف سب نے آواز اٹھائی ہے۔ سواہم شِخصیات بشمول سابق فوجی سربراہان نے صدر جمہوریہ اور وزیر اعظم کے نام کھلا خط لکھا ہے۔ پروفیسر اخترالواسع نے مزید کہا کہ بلاشبہ جو کچھ ہورہا ہے وہ تو تکلیف دہ ہے لیکن اس کے خلاف کارروائی نہ ہونا مزید تکلیف دہ ہے۔ ان سب حالات کے باوجود ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ہندووں کی اکثریت مسلمانوں کے ساتھ ہے۔ یہ مٹھی بھر لوگ ہیں جو ملک کو یرغمال بنانا چاہتے ہیں۔ہمیں انہیں اس کا موقع نہیں دینا چاہیے۔

راجدھانی میں پارلیمنٹ اسٹریٹ مسجد کے امام مولانا محب اللہ ندوی نے جو کچھ ہوا یقینا تکلیف دہ ہے ،اس سلسلے میں حکومت اور عدلیہ جتنی تیزی کے ساتھ کام کریں گے اتنا ہی مثبت پیغام جائے گا۔ اس وقت غیر مسلموں کا مسلمانوں کے ساتھ کھڑا ہونا بھی قابل مبارک باد اور ایک مثبت علامت ہے لیکن صرف اسی کی بنا پر مٹھی بھر شرارتی عناصر کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ہے کیونکہ یہ نیا رجحان قائم کرنا چاہتے ہیں جو خطرناک ہے۔ بات صرف مسلمانوں کی نہیں یہ ملک کی سالمیت کا سوال بھی ہے۔

 مولانا محب اللہ ندوی نے مزید کہا کہ اگر مولانا توقیر رضا خان نے کچھ فیصلہ کیا ہے تو یقینا سوچ سمجھ کر لیا ہوگا ،بلاشبہ مسلمانوں کا ایک بڑا طبقہ ان کے ساتھ ہے لیکن میری ان سے درخواست ہے کہ حالات کے سبب حکومت اور انتظامیہ کو مزید مہلت دیں تاکہ منا سب کارروائی کی جاسکے ۔اگر حکومت ایسے معاملات میں بروقت کارروائی کرے تو یقینا احتجاج کی نوبت بھی نہیں آئے گی۔

کوکلکتہ نا خدا مسجد کے امام مولانا شفیق قاسمی نے بڑے واضح الفاظ میں کہا کہ دھرم سنسد میں جو کہا گیا اس کا جواب قانونی ہونا چاہیے۔جو اس قسم کے بیانات دے رہے ہیں ان کا مقصد ہی شر پھیلانا ہے۔ ملک میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو خراب کرنا ہے۔ ہم ان کے مقصد کو پورا نہیں ہونے دیں گے۔بہتر طریقہ یہ ہے کہ آپ مختلف شہروں میں اس کے خلاف ااف آئی آر دائر کریں ،قانونی جنگ کی راہ ہموار کریں کیونکہ قانون سے بڑا کوئی نہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ ایک ایسے وقت جب ہندووں کی اکثریت اس معاملہ میں آپ کے ساتھ کھڑی ہے ایسا قدم انہیں ہم سے دور لے جائے گا۔ہم بھی اگر وہی کریں گے جو قابل مذمت ہے تو پھر ہمارا خالص مظلوم کا کردار چھن جائے گا۔مسلمان بھی انہی کی صف میں کھڑے ہوجائیں گے۔قابل غور بات یہ ہے کہ ان کے خلاف کیس درج ہوا ہے۔غیر مسلم اس سوچ کی مذمت کررہے ہیں یہی بات مسلمانوں کو صبر کی راہ دکھا رہی ہے۔

کولکتہ کے امام عید ین قاری الطاف الرحمان نے بھی کہا کہ ایک ایسے وقت جب مسلمانوں کے ساتھ غیر مسلم برادری بھی کھڑی ہے اور ہر کوئی اس کی مذمت کررہا ہے۔ اس قسم کی جوابی کارروائی کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ شرارت کا جواب شرارت سے نہیں دیا جاتا ہے۔حکمت سے کام لینا چاہیے۔

سب سے اہم بات یہ ہے ہم جس ملک میں ہیں وہ سیکولر ہے اور اس وقت 99 فیصد غیر مسلم اس معاملہ میں مسلمانوں کے ساتھ ہیں ۔اس لیے سیاست نہ ہو اگر کچھ کرنا ہی ہے تو قانونی طور پر کیا جائے جو ایک معقول اور مہذب طریقہ ہوتا ہے۔ توقیر رضا خان نے جو قدم اٹھایا ہے وہ بالکل مناسب نہیں ۔

انٹر نیشنل صوفی کارواں کے سربراہ اور اسلامی اسکالرمولانا مفتی منظور ضیائی نے اس معاملہ میں کہا کہ یقینا توقیر رضا خان ایک بڑے لیڈر ہیں اور ان کی اپنی ایک رائے ہے لیکن موجودہ حالات اس قسم کے اعلان اور احتجاج کے لیے موزوں نہیں ۔اگر کسی کو منظم یا متحد کرنا ہی ہے تو قانونی جنگ کے لیے وکلا کو اکٹھا کیا جائے ۔ نہ کہ علما کو کیونکہ یہ کوئی مذہبی معاملہ نہیں بلکہ دستوری اور قانونی معاملہ ہے۔

مولانا مفتی ضیائی نے مزید کہا کہ ہمیں وہی کرنا چاہیے جو دستور اور قانون کے دائرے میں ہو۔میں سمجھتا ہوں کہ اس قسم کے نعروں یا نفرت انگیزی کا قانونی جواب ہی سب سے بہتر طریقہ ہوگا ۔ یہ بات تو واضح ہے کہ آپ ایک غلط بات کا جواب غلط بات سے نہیں دے سکتے اس سے تو غلط اور صحیح کا فرق ہی مٹ جائے گا۔

ممبئی کے ممتازعالم اور دانشور مولانا ظہیرعباس رضوی کہتے ہیں کہ دیکھئے دھرمسنسد کے انعقاد میں کوئی برائی نہیں ،اس میں مذہبی معاملات پر تبادلہ خیال ہو،لیکن جوابی دھرم سنسد مناسب نہیں۔ بدلے کا جذبہ اور تاثر درست نہیں مانا جاسکتا ہے۔

ملک میں ہر انسانیت پسند اس کی مذمت کررہا ہے خواہ وہ ہندو و یا مسلمان ۔ہمیں اس بات کو سمجھنا ہوگفا کہ ہندو دھرم سنسد میں جو کچھ کہا گیا وہ ہندو ازم نہیں۔وہ شر پسندی ہے ،معاشرے کو تباہ کرنے کی سازش ہے۔ ملک میں خلفشار پیدا کرنے کی منصوبہ بندی ہے۔ مولانا رضوی نے مزید کہا کہ مولانا توقیررضا خان اپنی فکر اور سوچ کے اظہار کے لیے آزاد ہیں لیکن چند جاہلوں کی ایک شر انگیزی کا اس طرح جواب دینا دانشمندی نہیں ۔