یوم پیدائش :"مجاہدِ آزادی " رام پرساد بسملؔ

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 11-06-2021
 رام پرساد بسملؔ
رام پرساد بسملؔ

 

 

مجاہدِ آزادی اور انقلابی شاعر‘ رام پرساد بسملؔ ‘ نام رام پرساد، تخلص بسمل تھا ۔ وہ 11 جون 1897ء کو (شاہجہاں پور) اترپردیش میں پیدا ہوئے۔ وہ ایک عظیم انقلابی اور معروف مجاہد آزادی تو تھے ہی، اعلیٰ معیار کے شاعر، مترجم، ماہر السنہ، مورخ اور ادیب بھی تھے۔ انہوں نے ہندوستان کی آزادی کے لیے اپنی جان کی قربانی دے دی۔ ’’بسملؔ‘‘ ان کا اردو تخلص تھا۔ بسمل کے علاوہ وہ ’’رام‘‘ اور نامعلوم کے نام سے بھی مضمون اور کلام لکھتے تھے۔ انہوں نے 19 سال کی عمر میں انقلابی راستے پر قدم رکھا اور 30 سال کی عمر میں پھانسی چڑھ گئے۔ 11 سال کی انقلابی زندگی میں انہوں نے کئی کتابیں لکھیں اور خود ہی انہیں شائع کیا۔ ان کتابوں کو فروخت کرکے جو رقم ملی اس سے انہوں نے ہتھیار خریدے اور ان ہتھیاروں کا استعمال برطانوی راج کو اکھاڑ پھینکنے کے لیے کیا۔ ان کی 11 کتابیں ہی ان کی زندگی میں شائع ہوئیں۔ رام پرساد بسمل کی سدا بہار تخلیق ’’سرفروشی کی تمنا‘‘ ہے۔

ہندوستان کی جنگی آزادی کے ایک نام رام پرساد بسمل ایک جگہ کہتے ہیں “یہاں تک کہ اگر مجھے اپنی مادر وطن کی خاطر ہزار بار موت کا سامنا کرنا پڑے تو بھی مجھے افسوس نہیں ہوگا۔ اے خداء مجھے ہندوستان میں ایک سو جنم دے، لیکن مجھے یہ بھی ہمت عطا کریں کہ میں ہر بار مادر وطن کی خدمت میں اپنی جان قربان کردوں۔

ان کی جنگ آزادی کا سب سے اہم واقعہ کاکوری واقعہ تھا جس کے سبب انہیں اپنے پھانسی کی سزا دیدی گئی تھی لیکن ان کی بہادری اور انگریزوں کے خلاف اٹل رویہ ایک مثال بن گیا۔کیا تھا کاکوری کا واقعہ آئیے جانتے ہیں-

  کاکوری کا پر عزم واقعہ 

1925  مسلح جنگِ آزادی کے لیے سب سے اہم مسئلہ اسلحہ جات کی فراہمی اور اس کے لیے کثیر رقم کی حصول یا بی کا تھا۔ انقلابیوں نے طئے کیا کہ برطانوی حکومت پچھلی تین صدیوں سے ہندوستان کو لوٹ رہی ہے چنانچہ یہ رقم برطانوی حکومت کو لوٹ کر حاصل کی جائے گی۔اس مقصد کے تحت انقلابیوں نے 8 اگست 1925 کو ایک خفیہ نشست لی اور 9 اگست 1925 کو کاکوری کے مقام پر سرکاری خزانہ لے جارہی 8 ڈاﺅن سہارنپور۔لکھنو پسنجر ٹرین روک کر خزانہ لوٹ لیا ۔ اس ساری کاروائی میں اشفاق اللہ خان نے اکیلے ہی چھلنی اور ہتھوڑے کی مدد سے آہنی تجوری کو تو ڑ ا۔ اس مہم کی سربراہی انقلابیوں کے سردار رام پرساد بسمل نے کی ۔ اس مہم میں بسمل اور اشفاق اللہ خان کے علاوہ دیگر8 انقلابی بھی شامل تھے۔

 کاکوری واقعہ تاریخ آزادی ہند میں ایک سنگ میل کی حیثیت سے درج ہوا۔یہ واقعہ انگریزوں کی طاقت انکے غرور و گھمنڈ پر ایک کاری ضرب تھا ۔جس سے برطانوی حکومت بوکھلا اُٹھی۔ ہندوستان میں موجود برطانوی وائسرائے لارڈ ریڈنگ نے فوراً اسکاٹ لینڈ یارڈ پولیس محکمے کو تفتیش کے لیے نامزد کیا ۔ خفیہ پولیس نے مہینے بھر ہی میں اس واقعہ میں ملوث انقلابیوں کو شاہجہاں پور سے گرفتا ر کرلیا۔ اشفاق اللہ خان گرفتاری سے بچ کر کسی طرح روپوش ہونے میں کامیاب ہوگئے۔بنارس پہونچ کر وہ ایک انجنیئرنگ کمپنی میں ملازمت کرنے لگے۔ وہ رات دن اس فکر میں تھے کہ کسی طرح ملک سے باہر جاکر لالہ ہردیال سے ملیں۔

 لالہ ہردیا ل ان دنوں امریکہ میں مقیم تھے اور اپنے ذاتی افکار کی تحریر و تقاریر کی مدد سے عوام میں تبلیغ کررہے تھے۔ شروعاتی دور میں لالہ ہردیال کمیونزم سے خاصے متاثر رہے۔اشفاق اللہ خان لالہ ہردیال سے ملکر انھیں آزادی وطن کی سرگرمیوں میں شامل کرنا چاہتے تھے۔ انہی سے ملنے کی خاطر اشفاق اللہ خان بنارس سے دلی آئے تاکہ جلد ملک سے باہر جاسکیں۔لیکن جن میر جعفروں اور میر صادقوں نے ملک کو انگریزی سامراج کے پنجہ استبداد کا اسیر بنایا تھا ، وہ یہاں بھی اشفاق اللہ خان کے تعاقب میں تھے ان کے ایک پٹھان دوست نے سیاہ بختی کا ثبوت دیتے ہوئے ان کو گرفتار کروادیا۔اس طرح تاریخ ہند و تاریخ امت میں ایک اور میر جعفر اور میر صادق کا اضافہ ہوا۔ اشفاق اللہ خان فیض آباد جیل روانہ کردیے گئے جہاں پر انکے خلاف قتل ، ڈکیتی اور حکومت کے خلاف سازش کا مقدمہ چلایاگیا۔

 اشفاق اللہ خان کے بھائی ریاست اللہ خان نے کرپا شنکر ہجیلہ کو ان کے مقدمے کی پیروی سونپی کرپاشنکر صاحب نے مقدمے میں کوئی کثر نہ چھوڑی، لیکن برطانوی ظالم حکومت نے عدالتی کاروائی محض خانہ پوری کے لیے کی تھی چنانچہ انھیں سزائے موت سنائی گئی۔ کاکوری سازش کے تحت برطانوی حکومت نے اشفاق اللہ خان ، رام پرساد بسمل، راجندر لہری اور ٹھاکر روشن سنگھ کو سزائے موت اور دیگر 16 انقلابیوں میں سے چار کو سزائے عمر قید و باقی کو چار سال کے لےے قید بامشقت کی سزا تفویض کی گئی۔

 مقدمے کے دوران انگریزوں نے اشفاق اللہ خان کو سرکاری گواہ بنانے اور رام پرساد بسمل کے خلاف گواہی دینے کے لیے رضامند کرنے کی خاطر پولیس انسپکٹر تصدق حسین کو نامزد کیا جس نے اشفاق اللہ خان کو مذہب کا واسطہ دے کر کہا کہ تم کیسے مسلمان ہو جو ایک ہندو کا ساتھ دے رہے ہو جو اس ملک کو ہندو راشٹر بنانا چاہتے ہیں اس کے جواب میں اشفاق اللہ خان نے کہا کہ رام پرساد کا ہندو راشٹر آپ کے برطانوی حکومت سے بہتر ہوگا ۔

و ہ جدوجہد برطانوی سامراج کی خواہشات کے برعکس جیل کی چاردیواری میں مقیّد نہ رہ سکی۔ پارٹی نے نہ صرف جیل کے باہر اپنی انقلابی جدوجہد جاری رکھی بلکہ قانونی سطح پر بھی سزائے موت کے حقدار ٹھہرائے جانے والے ساتھیوں کی رہائی کے لیئے ہر ممکن کوشش کی۔ سڑکوں، گلیوں، چوراہوں میں جہاں احتجاج منظم کیئے گئے وہیں قانونی سطح پر گوبند بلبھ پانٹ، موہن لال سکسینہ، چندر بھانوُ گپتا، اجیت پرساد جین، گوپی ناتھ شری واستو، آر ایم بہادر جی، بی کے چوہدری اور کِرپا شنکر ہجیلہ کی طرف سے ملنے والی قانونی مدد کو قبول کیا حالانکہ سب جانتے تھے برطانوی سامراج کبھی بھی ان کو ذندہ چھوڑنے کا رِسک نہیں لے گا۔

معروف سیاسی شخصیات پر بھی عوامی دباؤ اِس قدر بڑھا کہ وہ بھی ’کاکوری معرکے‘ کے سرفروشوں کے حق میں بیان دینے پر مجبور ہو گئے۔ جن سیاسی شخصیات نے کاکوری معرکے میں ملوث کارکنان کا ساتھ دیا، ان میں موتی لعل نہرو، مدن موہن مالویہ جی، محمد علی جناح، لالہ لاجپت رائے، جواہر لعل نہرو، گنیش شنکر ودھیارتی، شِو پرساد گپتا، شری پرکاش اور اچاریہ نرندر دیو شامل ہیں۔ تاہم، یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ جگت نرائن ملا جو انقلابیوں کے خلاف سرکاری وکیل تھے، پنڈت جواہر لعل نہرو برادِ نسبتی تھے اور انہوں نے انقلابیوں کو پھانسی چڑھانے کی سر توڑ کوشش کی۔

 ملک بھر میں انقلابیوں کی رہائی کے لیئے پر تشدد احتجاج شروع ہو چکے تھے۔ لوگ اپنے خون سے انقلابیوں کی رہائی کے لیئے خطوط لکھ کر وائسرائے ہند، گاندھی اور پرائوی کونسل کو بھیج رہے تھے۔ مگر تمام درخواستیں رد کی جارہی تھیں۔

۔ ۲۲ اگست انیس سو ستائیس کو چیف کورٹ میں انقلابیوں کی پھانسی کے خلاف اپیل دائر کی گئی، مگر ملک کی اس سب سے بڑی عدالت نے اس اپیل کو خارج کر دیا۔ ۹ ستمبر انیس سو ستائیس کو گورکھپور جیل سے بسمل جی نے مدن موہن مالویہ جی کو ایک خط ارسال کیا، جِس کی بنیاد پر مالویہ جی نے مرکزی مقننہ کے 78 ارکان کے دستخطوں کے ساتھ اس وقت کے گورنر جنرل اور وائسرائے شاہ ایڈورڈ فریڈرک لنڈلے ووڈ کو ایک یارداشت بھی بھجوائی مگر اِس یارداشت کو بھی رد کر دیا گیا۔ اس ضمن میں آخری کوشش یہ کی گئی کہ ایک برطانوی وکیل ایس۔ ایل۔ پولاک کے ذریعے سولہ ستمبر انیس سو ستائیس کو تاجِ برطانیہ میں چاروں انقلابیوں کی سزائے موت ختم کرنے کی اپیل کی گئی مگر سرکار نے اس اپیل کا یہ جواب دیا کہ ’چاروں انقلابیوں کو ۱۹ دسمبر، انیس سو ستائیس تک پھانسی دے کر یہ معاملہ جلد از جلد ختم کر دیا جائے‘۔

 پھانسی کی تاریخ ۱۹ دسمبر تھی مگر برِ صغیر پر قابِض گوری سرکار نے دو دن پہلے ہی رام پرساد بسمل، اشفاق اللہ خان، ٹھاکر روشن سنگھ اور راجندر ناتھ لہری کو پھانسی کی گھاٹ اتار دیا۔ اِس طرح کاکوری معرکہ جسے حکمران طبقات کاکوری ٹرین ڈکیتی یا کاکوری سازش کہتے ہیں، برِصغیر کی آذادی اور انقلاب کا پیش خیمہ بنا اور بلاخر، برطانوی سامراج کو انیس سو چھیالیس میں برِصغیر سے اپنا بوریا بستر لپیٹ کر واپس لوٹنا پڑا۔