ایک مسجد، جس کی دیکھ بھال کر رہے ہیں ہندو

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 30-06-2021
ایک مسجد، جس کی دیکھ بھال کر رہے ہیں ہندو
ایک مسجد، جس کی دیکھ بھال کر رہے ہیں ہندو

 

 

 سراج انور، پٹنہ

ریاست بہار کے ضلع نالندہ کو صوفی کی نگری کہا جاتا ہے۔ کیوں کہ یہ مشہور صوفی مخدوم جہاں شیخ شرف الدین یحییٰ منیری کا شہر ہے۔

نالندہ بہار کے موجودہ وزیراعلیٰ نتیش کمار کا آبائی وطن ہے۔

 اسی شہر میں صوفی مخدوم جہاں شیخ شرف الدین احمد ان کی ایک درگاہ ہے۔ جہاں ہندو اور مسلمان دونوں عقیدت و احترام سے جاتے ہیں۔

نالندہ شہر کی ایک اور خصوصیت ہے۔ یہی وہ تاریخی شہر جہاں کسی زمانہ نالندہ یونیورسٹی قائم تھی، جو کہ عالمی سطح پر علم کا مرکز تھا۔

  ہندو مسلم اتحاد کی ایک انوکھی مثال نالندہ ضلع کے گاوں ماڈی میں دیکھنے کو مل رہی ہے۔یہ گاوں ریاست بہار کے دارالحکومت پٹنہ سے 66 کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔

خیال رہے کہ پہلے ماڈی گاوں کو منڈی کہا جاتا تھا۔ یہاں ایک مسجد ہے، جس کی دیکھ بھال ایک ہندو خاندان برسوں سے کرتا آ رہا ہے۔

 پانچوں وقت یہاں اذان ہوتی ہے

بتایا جاتا ہے کہ 200 سال قدیم مسجد اب بھی گاؤں کا ورثہ بنی ہوئی ہے ۔کہا جاتا ہے کہ فسادات کی وجہ سے مسلمان اس گاؤں سے بھاگ گئے تھے۔ان کی نشانی یہاں کی ایک مسجد ہے جب کہ اس گاؤں میں مسلمانوں کا ایک بھی مکان نہیں ہے۔

اب چونکہ گاؤں میں مسلمان نہیں ہیں ، اس لئے اس گاؤں کے ہندو بھائیوں نے مسجد کی دیکھ بھال کی ذمہ داری اُٹھائی ہے۔

یہاں نماز تو نہیں ہوتی ہے لیکن یہاں پانچوں وقت اذان دی جاتی ہے۔

یہاں ہندو آباد ہیں، انہیں اذان پڑھنا نہیں آتی، لیکن انھوں نے ریکارڈنگ کے ذریعہ اذان دینا شروع کیا ہے۔ جب نماز یا اذان کا وقت ہوتا ہے ریکارڈنگ بجا دی جاتی ہے۔

یہاں ہندو سماج کے لوگ صبح و شام مسجد کی صفائی کرتے ہیں۔ مسجد میں بھی ہر سال عید کے دن پینٹ کیا جاتا ہے۔

اس مسجد کی صفائی کی ذمہ داری گوتم مہتو، اجے پاسوان، بکھوری جمیدار اور دیگر افراد نے رضاکارانہ طور پر لی ہے۔

دوسو برس پرانی مسجد

 بہارشریف کے معروف صحافی ارون مینک بتاتے ہیں کہ اس مسجد کی تاریخ دو سو سال قدیم ہے۔اس مسجد کو بہارشریف میں صدر عالم اسکول کے ڈائریکٹر خالد عالم کے دادا بدرِ عالم نے 200 سال قبل تعمیر کیا تھا۔ 

awaz the voice urdu

مسجد کی دیکھ بھال کرتے ہندو

سنہ 1981 سے پہلے تک ماڈی گاؤں میں اقلیت اور اکثریتی طبقہ کے افراد ایک ساتھ رہتے تھے۔ تاہم 1981 میں ہونے والے فرقہ وارانہ فسادات کے بعد اس گاؤں میں بسنے والے سبھی مسلمان شہر کو ہجرت کرگئے۔

ارون مینک کا کہنا ہے کہ گاؤں میں مندر ہونے کے باوجود یہاں ہندو سماج کے لوگ اس مسجد کو گاؤں کا انمول ورثہ سمجھتے ہیں۔

گاوں میں نام کی تبدیلی

بہارشریف کے رہائشی عمران صغیر کہتے ہیں پہلے اس گاؤں کا نام منڈی تھا۔یہ ضلع میں ایک منڈی کے طور پر قائم کیا گیا تھا۔ جب نالندا یونیورسٹی تھی ، وہاں ایک بازار ہوا کرتا تھا۔ اسی وجہ سے گاؤں کا نام منڈی تھا۔

اس کے بعد لوگوں نے اجتماعی طور پر اس کو ماڈی کہنا شروع کیا۔ گاؤں میں بارش اور سیلاب کی وجہ سے آنے والی تباہی کے بعد اس کا نام تبدیل ہوتا رہا۔

اس کا نام نیم ماڈی ، پھر پاو ماڈی ، پھر مشکات ماڑی اور آخر میں اسماعیل پور ماڈی رکھا گیا۔اس کا نام ایک زمانہ میں اسماعیل پور بھی رکھا گیا تھا۔

اس تعلق سے عمران صغیر بتاتے ہیں کہ گاؤں کسی زمانہ میں ایک بزرگ حضرت اسماعیل ہوا کرتے تھے، ان کے عہد میں یہ گاوں بہت خوش حال تھا۔

حضرت اسماعیل کے انتقال کے بعد لوگوں نے ان کا مزار یہاں بنایا، آج بھی ان کا مزار یہاں قائم ہے۔سبھی لوگ اس مزار کے سامنے آتے ہیں اور عقیدت و احترام کے ساتھ سر جھکاتے ہیں۔

مسجد میں گہرا عقیدہ

یہاں رہنے والے دیہاتیوں کا مسجد کے تئیں گہرا اعتماد ہے۔ کسی بھی اچھے کام کے آغاز سے پہلے لوگ مسجد کی زیارت کرنا ضروری سمجھتے ہیں۔

 

گاوں میں یہ روایت برسوں سے چلی آ رہی ہے۔ اس سے پہلے اکثر ماڈی میں آتشزدگی ہوتی تھی اور سیلاب آتے تھے۔ لیکن جب سے اس گاؤں میں بزرگ حضرت اسماعیل آئے، گاوں والوں کی زندگی میں سکون آگیا۔آتشزدگی بھی کم ہوگئی اور سیلاب آنا بھی بند ہوگئے۔

آج صورت حال یہ ہے کہ جب بھی گاؤں میں کسی خاندان کو کوئی مصیبت پیش آتی ہے وہ مزار پر آکر دعا کرتے ہیں۔

ماڈی گاوں کی مسجد کو ہندوں نے آباد کر رکھا ہے، اگرچہ یہاں سے مسلمان چلے گئے تاہم ہندوں نے مسجد کو ہر حال میں باقی رکھا۔

یہ مسجد ہندو مسلم اتحاد کی بہترین مثال ہے۔