‘حیدرآباد میں دھڑلے سے بک رہی ہے ’مندی

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 22-01-2021
حیدرآباد میں مندی کی ٹش کا بخار
حیدرآباد میں مندی کی ٹش کا بخار

 

 واجد اللہ خان/ حیدرآباد

شہر حیدرآباد میں 'مندی' کی ہوٹلوں میں کام کرنے والے ان دنوں کافی مصروف ہیں اور کسی سے بات کرنے کی ان کو فرصت نہیں ہے کیونکہ وہ ہوٹل آنے والے گاہکوں کی خدمت کرتے ہوئے کافی سرگرم نظر آ رہے ہیں۔دراصل حیدرآباد میں ان دنوں عربی ڈش 'مندی' کی مقبولیت میں کافی اضافہ دیکھنے کو مل رہا ہے۔ اس کی شہر میں گذشتہ چند برسوں سے کافی چرچے  ہیں۔

'المندی ریسٹورنٹ بہادر پورہ حیدرآباد' کے مالک محمد منان پرویز اس بارے میں بتاتے ہوئے کہتے ہیں'شام کا وقت ہمارے لئے کافی اہم ہوتا ہے کیونکہ اُس وقت گاہکوں کی بڑی تعداد ہمارے ہوٹل آتی ہے اور ہم اس کو اہم وقت تصور کرتے ہیں۔'گذشتہ چند برسوں سے سعودی عرب اور دیگر خلیجی ممالک سے منسلک و مربوط اس اہم ڈش نے شہریان حیدرآباد کے ذائقہ کو نئی جلا بخشی ہے کیونکہ شہر کی کئی مشہور ریسٹورنٹس کے مینو میں یہ شامل ہوگئی ہے۔

یہ اس قدرعام ہے کہ اس کا سخت مقابلہ حیدرآباد کی مشہور بریانی سے ہو رہا ہے۔ایک گاہک نے کہا: 'مندی روایتی غذا بننے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ آئندہ چار تا پانچ برسوں میں یہ بریانی کو سخت مقابلہ دے سکتی ہے۔'یہاں تک کہ ایسے ہوٹل جو حیدرآبادی بریانی کے لئے مشہور ہیں وہ بھی مندی فروخت کررہے ہیں۔ مندی، ہوٹل مالکین کے لئے کافی فائدہ کا سودا بن گئی ہے کیونکہ اس کی ایک پلیٹ کی قیمت 400 روپے ہے۔ یہ قیمت بریانی سے دوگنی ہے۔

اس کی طلب میں اتنا اضافہ ہوگیا ہے کہ پرانا شہر حیدرآباد کے ہر کونہ میں کوئی نہ کوئی مندی کی ہوٹل نظر آ ہی جائے گی۔ اس عربی ڈش کا مرکز، منبع و محور بارکس علاقہ ہے جہاں عرب خاندان کے لوگ بڑی تعداد میں رہتے ہیں۔ ان کے آبا و اجداد تلاش معاش کے سلسلہ میں سابق ریاست حیدرآباد دکن میں نظام کے دور حکومت میں آئے تھے۔'حیدرآباد کی ہوٹلوں کی بڑی تعداد نے مندی کے لئے علیحدہ سیکشن کھولا ہے جہاں بیٹھنے کا انتظام روایتی طریقہ سے جداگانہ ہے۔ کرسیوں اور میزوں کے بجائے خصوصی عربی ڈش چوکی پر فراہم کی جاتی ہے تاکہ لوگ اس کے اطراف بیٹھ کر آسانی کے ساتھ اسے تناول کرسکیں۔

'مندی نے نہ صرف پرانا شہر حیدرآباد کے لوگوں بلکہ شہر کے دیگر علاقوں میں رہنے والے تلگو افراد اور نوجوان خصوصاً کارپوریٹس کو اپنی جانب راغب کیا ہے۔ کئی افراد کی اس کو دیکھتے ہی رال ٹپکنے لگتی ہے۔ اس کا اہم جز گوشت لوگوں کو اپن جانب کھینچتا ہے۔ کھانے کے معاملہ میں حیدرآبادی لوگ کافی محتاط رہتے ہیں اور ان دنوں مندی ان کے معیارات پر پوری اتر رہی ہے۔ بارکس علاقہ کے زیادہ تر لوگوں نے مندی کو اپنی اہم غذا بنا لیا ہے۔'

یہ بنتی کیسے ہے؟

روایتی مندی گوشت، لونگ، دارچینی، زعفران، الائچی سے تیار کی جاتی ہے تاہم اس کا حیدرآبادی ورژن قدرے مختلف ہے۔پرویز نے کہا: 'چونکہ عرب لوگ مرچ پاوڈر کو پسند نہیں کرتے اسی لئے وہ عموما پھیکی مندی پسند کرتے ہیں لیکن ہم مندی میں کئی اجزا اور مصالحہ جات جیسے چلغوزہ، مونگ پھلی اور ہری مرچ کو شامل کرتے ہوئے اس کو حیدرآبادی انداز دیتے ہیں۔ مندی ایک بڑے خصوصی اوون میں تیار کی جاتی ہے جس کے لئے زمین میں ایک بڑا گڑھا کھوداجاتا ہے اور اس کے اطراف مٹی گیلی لگائی جاتی ہے۔ مندی کے ساتھ کئی طرح کے سوپ اور مٹھائیاں بھی ہم فراہم کرتے ہیں۔ یہ نوجوان نسل اور خاندانوں کے لئے پسندیدگی کا سبب بن گیا ہے۔ فش مندی اور جھینگے کی مندی بھی شہر کے آوٹ لیٹس میں دستیاب ہے۔ کئی افراد میں چکن اور مٹن کی مندی بھی مشہور ہے۔'

مقبولیت میں اضافہ

تقریباً سات تا آٹھ برس پہلے یہ عربی ڈش صرف بارکس تک ہی محدود تھی تاہم بتدریج یہ ایک رجحان بن گئی۔ دونوں جڑواں شہروں حیدرآباد اور سکندرآباد میں کئی مخصوص مندی ہاؤس قائم ہوگئے۔اس کی مقبولیت اتنی زیادہ ہے کہ یہ ڈش اب شادی بیاہ کی تقاریب میں بریانی کے ساتھ ساتھ اضافی آئٹم کے طورپر پیش کی جانے لگی ہے۔ملک پیٹ علاقے میں قائم 'آل سعود بیت المندی' کے مالک سید امیر ابرار کا اس بارے میں کہنا ہے: 'ان دنوں مندی بیشتر فوڈ کورٹس میں آسانی کے ساتھ دستیاب ہے۔ ہم نے فوڈ انڈسٹری میں کئی طرح کی تبدیلیاں اس مندی کے سبب دیکھی ہیں۔'

اب ملٹی کوزائنس میں بھی لوگ مندی کو پسند کرنے لگے ہیں اور بیرونی غذاوں کو اہمیت دی جا رہی ہے۔ یہاں تک کہ شہر حیدرآباد میں مقیم دیگر ریاستوں کے لوگ بھی جو یہاں کام کرتے ہیں اس عربی ڈش سے لطف اندوز ہورہے ہیں۔'مطعم ابوفیصل عربین فوڈ حافظ بابا نگر کے مالک محمد ارشد محی الدین حسین نے کہا: 'ہمیں اس نئے رجحان کا احساس ہے۔ گذرتے دنوں کے ساتھ شہریان حیدرآباد کا کلچر اور غذائی عادات بتدریج بدلتی جا رہی ہیں۔

 اگر کوئی بے اختیار کسی غذا کو پسند کرتا ہے تو وہ دوسروں کو اس کی سفارش کرتا ہے اور ایسا ہی معاملہ مندی کے ساتھ ہوا ہے۔ اس غذا کے لئے لوگوں کا دیوانہ پن دیکھا جارہا ہے۔ اس میں روز بروز اضافہ ہی ہوتا جا رہا ہے تاہم یہ مندی حیدرآبادیریانی کو نہیں ہراپائی۔'