نعیم اختر نے اپنے اسٹارٹ اپ کے لیے کیوں چھوڑی نوکری

Story by  اے ٹی وی | Posted by  Shah Imran Hasan | 1 Years ago
 نعیم اختر نے اپنے اسٹارٹ اپ کے لیے کیوں چھوڑی نوکری
نعیم اختر نے اپنے اسٹارٹ اپ کے لیے کیوں چھوڑی نوکری

 

 

ڈاکٹر شجاعت علی قادری

نعیم اختر کو شروع سے ہی کاروبار میں اپنا نام اور مقام بنانے کی خواہش تھی لیکن والدین کی جانب سے اجازت نہ ملنے کی وجہ سے وہ ایسا نہ کر سکے۔لیکن اب وہ اپنی زندگی میں اپنے اچھے برے کے لئے خود فیصلہ کرنے کی پوزیشن میں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے اپنی نوکری چھوڑ دی اوراس کے بعد اپنی پسند کے کاروبار میں لگ گئے۔

جو لوگ کاروبار کر کے اپنے پاؤں پر کھڑے ہونے کی خواہش رکھتے ہیں اور دوسروں کو روزگار فراہم کرتے ہیں، ان کا دل نوکریوں میں کیسے لگے گا؟ انہیں ملازمت کا تجربہ ہے، لیکن وہ مستقل طور پر کام کرنا پسند نہیں کرتے۔ بیجاپور میں پلے بڑھے اور شمالی کرناٹک کے مختلف شہروں میں کام کرنے والے نعیم اختر ایسے ہی ایک شخص ہیں جنہیں اپنے ذاتی کاروبار میں کامیابی کی منزلیں طے کرنا شوق اور جذبہ ہے۔ انہوں نے ایساکیا بھی ہے۔ انہوں نے ایک ای کامرس ویب سائٹ شروع کی ہے جو مسلم فیشن کے لیے وقف ہے۔

نعیم بتاتے ہیں ہندوستان کے 17 کروڑ مسلمانوں کے ساتھ ساتھ دنیا کے مختلف ممالک میں پھیلے ہوئے مسلمانوں میں اپنی نوعیت کی فیشن آئٹمز کی مانگ بڑھ رہی ہے، لیکن دنیا میں کروڑوں روپے کے کاروبار کا یہ شعبہ اب بھی غیر منظم ہے۔ اسی بات کو مدنظر رکھتے ہوئے مبارک ڈیلز اس خصوصی مارکیٹ میں داخل ہوئی ہے۔

نعیم اختر نے ایم بی اے کرنے کے بعد بجاج الیانز میں ملازمت سے اپنی زندگی کا آغاز کیا۔ انہوں نے ایک ایگزیکٹو کے طور پر شروعات کی اور بعد میںNSMSL، HDFC اور سن ایڈیسن جیسی کمپنیوں میں کام کیا۔ اور وہ منیجر کے عہدے تک پہونچے۔

وہ بتاتے ہیں کہ سن ایڈیسن میں کام کرتے ہوئے میں نے مارکیٹ کے بارے میں بہت کچھ سیکھا۔ یہاں کام کرنے کی کافی آزادی تھی۔ یہیں سے میں نے محسوس کیا کہ اب مجھے اپنے خواب کو سچ کرنے کے لیے نکلنا چاہیے۔ وہ بتاتے ہیں کہ اسنیپ ڈیلز اور فلپ کارٹ جیسی کمپنیوں کے بارے میں پڑھتا رہتا تھا۔ میں نے سوچا کیوں نہ ایک ایسا پلیٹ فارم بنایا جائے جہاں مسلمان فیشن کی تمام باتیں کر رہے ہوں پھر کچھ دوستوں کے ساتھ میں نے مبارک ڈیل شروع کر دیا۔

نعیم کا کہنا ہے کہ ای کامرس میں مسلموں کے لئے اپنی پسند کے بہت کم کپڑے ہوتے ہیں۔ اس بات کو ذہن میں رکھتے ہوئے، 'مبارک ڈیلز' نے ملک بھر میں اپنے آپریشنز کو پھیلانے کا فیصلہ کیا۔Mubarakdeals.com ایک آن لائن شاپنگ ویب سائٹ ہے۔ اس میں نہ صرف عام دنوں کے لیے استعمال ہونے والی اشیاء ہیں بلکہ خاص مواقع پر استعمال ہونے والے کپڑے، زیورات اور دیگر اشیاء بھی موجود ہیں۔

کمپنی کے سی ای او نعیم اختر کا کہنا ہے کہ مسلم خواتین کو ان کی پسند کی چیزیں آسانی سے نہیں ملتی ہیں۔ اس بات کو ذہن میں رکھتے ہوئے اپنے نئے منصوبے کی بنیاد رکھی کہ اسے وہ چیزیں خریدنے پر مجبور نہ کیا جائے جو اسے کم پسند ہوں۔ ان کے مطابق مسلم طرز کے ملبوسات کا کاروبار 2021-22 میں 300 ملین ڈالر سے زیادہ رہا۔ ان کی ویب سائٹ دنیا کی مسلمانوں کے درمیان اپنی شناخت بنا کر اپنا کاروبار بڑھانا چاہتی ہے۔

نعیم اختر کے مطابق بھارت میں خواتین جب  اپنی پسند کے کپڑوں کی تلاش میں نکلتی ہیں توصرف انہیں 10 فیصد اطمینان حاصل ہوتا ہے۔ کم معیار کا کپڑا، سلائی میں خامیاں، اور کڑھائی میں بدصورتی، بہت سے ایسے عوامل ہیں جن کی وجہ سے وہ اپنی پسند کی چیزوں کی تلاش میں کافی وقت صرف کرتی ہیں۔ ڈیزائنر مارکیٹ بھی کپڑوں کے ڈیزائن میں مسلم خواتین کے انتخاب پر زیادہ توجہ نہیں دیتی۔

دراصل نعیم اختر کا دھیان شروع سے ہی کاروبار کی طرف تھا لیکن ان کے والدین نے انہیں اجازت نہیں دی اور کہا کہ جب وہ 26 سال کے ہوجائیں تو اس کے بارے میں سوچیں۔

وہ بتاتے ہیں کہ والدین ڈرتے تھے کہ کہیں میں کاروباری معاملے کی وجہ سے اپنی تعلیم ادھوری نہ چھوڑ دوں، لیکن آج مجھے نہ صرف ملازمتوں کا تجربہ ہے بلکہ میں اپنے کاروبار کو بڑھانے کا منصوبہ بھی رکھتا ہوں۔ مجھے امید ہے کہ کاروبار بتدریج آگے بڑھے گا۔

وہ بتاتے ہیں کہ مبارک ڈیلز فی الحال بنگلور سے کام کر رہی ہے۔ لیکن ہم ہندوستان بھر کے صارفین تک پہنچنا چاہتے ہیں۔ بہت جلد کمپنی میں 10 نئے ملازمین کی خدمات حاصل کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔

'فی الحال، سائٹ پر حجاب عبایا، شیروانی، کرتا پاجامہ، زیورات، پرفیوم، حجاج کے کپڑے جیسی اشیاء موجود ہیں۔ رفتہ رفتہ اس فہرست میں توسیع کی جائے گی۔

نعیم اختر نے جب ملازمت چھوڑی تو ان کی تنخواہ کاروبار کی ابتدائی آمدنی سے بہت بہتر تھی۔ اچھی طرح سے طے شدہ آمدنی چھوڑ کر کاروبار کی طرف آنا ایک بہادری کا کام ہے۔ آج وہ خوش ہیں کہ بچپن سے اپنے کاروبار کے بارے میں سوچنے کے بعد آج انہیں اس پر عمل کرنے کا موقع ملا۔ان کا کہنا ہے کہ محنت اور لگن سے آگے کی منزلیں طے کرنے کی جدوجہد جاری  رہے گی۔

 نوٹ: مضمون نگار کمیونٹی لیڈر اور ایم ایس او کے چیئرمین ہیں۔