روح افزا ۔ صرف شربت نہیں زندگی ہے

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 30-04-2021
رگوں میں دوڑتا شربت
رگوں میں دوڑتا شربت

 

 

رگوں میں دوڑتا مشروب ہے روح افزا 

لال شربت اب تہذیب کا حصہ ہے۔

روح افزا کے بغیر رمضان المبارک کا تصور نہیں ۔۔

ایک صدی گزر جانے کے بعد بھی جوان ہے روح افزا

 

منصور الدین فریدی ۔ نئی دہلی

روح افزا ۔کہتے ہیں نام ہی کافی ہے، یہ نام ذہین میں آتاہے تو زبان میں عجیب وغریب مٹھاس اور ترو تازگی کا احساس پیدا کرجاتا ہے۔یہی نہیں آنکھوں میں چمک آجاتی ہےاور روح خود بخود تازہ ہوجاتی ہے۔گرمی اور تھکن کا نام ونشان مٹ جاتا ہے ۔ یہ صرف نام کا ذہین میں آنے کا نتیجہ ہوتا ہے،آگے کی کہانی تو مدہوش کرنے والی ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس شربت کو شربتوں کا بادشاہ کہتے ہیں جو 115سال کے بعد بھی جوان ہے۔ عالمی بازار میں بڑے بڑے کھلاڑیوں کے نازل ہونے کے باوجودروح افزا بے رنگ ہوا اور نہ بے ذائقہ۔ روح افزا کا مقام شربت کی دنیا میں ’ایورسٹ‘ جیسا ہے۔ ہر کسی کی ایک خواہش ہوتی ہے کہ روح افزا جیسی شہرت اور مقبولیت کے ساتھ ساکھ بھی مل جائے لیکن اللہ نے اس شربت کی قسمت میں جو مقام لکھ دیا وہ ابتک کسی کے نصیب میں نہیں آسکا ہے۔

زندگی کا حصہ بننے کا مطلب اگر آپ کو سمجھنا ہے تو اس لال یا سرخ رنگ کی بوتل ’روح افزا ‘کو دیکھ لیں۔ یہ شربت دراصل دنیا کے ایک بڑے حصہ کی زندگی کی روح بن چکا ہے۔ خاص طور پر اگر بات رمضان المبارک کی کریں تو روح افزا کا کوئی متبادل نہیں ۔ روزے دار کے سامنے کھجور کے ساتھ جو شئے ہوتی ہے وہ روح افزا ہی ہوتا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ گو یہ مشروب تاثیر میں ٹھنڈا ہے لیکن رمضان خواہ گرمیوں کے ہوں یا سردیوں کے، افطار میں لال شربت ایک لازمی جزو کی حیثیت رکھتا ہے۔

دراصل’ روح افزا ‘ صرف ایک شربت یا مشروب نہیں رہا جو صرف خاطر تواضع کے لئے استعمال نہیں ہوتا بلکہ ہماری تہزیب و ثقافت اور روایت کا حصہ بن چکا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ نہ جانے کتنی دہائیوں کے گزر جانے کے باوجود یہ ہمارے اعصاب پر حاوی ہے۔آج بھی اس کی خوشبو، ماضی کی یادوں کے نہ جانے کتنے دریچے کھول دیتی ہے۔

ہمدرد‘کا تحفہ ہے ’روح افزا‘،حکیم عبدالمجید صاحب مرحوم کی سوچ کا نتیجہ ہے ’روح افزا‘ جبکہ حکیم استاد حسن خان کے نسخہ کا پھل ہے ’روح افزا‘۔

ہمدرد کی کہانی

روح افزا چونکہ ہمدرد کی دین ہے ،اس لئے ہمدرد کی کہانی بھی جاننی ضروری ہے۔ اس ادارے نے یوں تو یونانی دواوں کا کام شروع کیا تھا،ادارے کی پہلی دوا ’حب مقوی معدہ‘ تھی۔ لیکن اس کی پہچان یقینا یہی روح افزا سے ہی بنی ۔ حکیم عبد المجید نے سب سے پہلے مسیح الملک حکیم اجمل خاں کے قائم کردہ ہندوستانی دواخانے میں ملازمت کی تھی ۔ سال 1904 میں اپنے سسر رحیم بخش صاحب سے کچھ پیسے لے کر ہمدرد کی بنیاد ڈالی اور اس کے ساتھ ساتھ جڑی بوٹیوں کی تجارت بھی شروع کی۔ ہمدرد دکان کو چلانے کے لئے حکیم عبدالمجید نے نباتات سے دوائیں بنانا شروع کیں۔ ان کی اہلیہ رابعہ بیگم نے ہر مرحلے پر اپنے شوہر کا ہاتھ بٹایا تھا۔ رابعہ بیگم اور ان کی بہن فاطمہ بیگم دونوں عبدالمجید صاحب کا ہاتھ بٹاتی تھیں اور سل بٹے سے نباتات پیس کر ہاتھ سے گولیاں بناتی تھیں۔ حوض قاضی سے ہمدرد کی منتقلی لال کنویں کی ایک دکان میں ہوئی اور جب اس کاروبار میں وسعت پیدا ہوئی تو اس کو لال کنویں سے اس کی ابتدائی جگہ منتقل کرنا پڑا۔

روح افزا کے نسخہ ساز تھے حکیم استاد حسن خان

سب جانتے ہیں کہ روح افزا در اصل ’ہمدرد‘ کی پیداوار ہے۔ مگر اس شربت اعظم کا نسخہ کب اور کس نے تیار کیا؟ اس کی ایک دلچسپ کہانی ہے۔ در اصل حکیم عبدالمجید کے همدرد دوا خانے میں حکیم استاد حسن خان بھی طبیب اور ادویہ سازی کے شعبے سے وابستہ تھے۔ان کا تعلق اتر پردیش کے سہارنپور سے تھا لیکن تلاش معاش میں وہ دہلی آبسے تھے۔ یہی وہ پہلے شخص تھے جنہوں نے روح افزا کا پہلا نسخہ ترتیب دیا تھا۔۔ پاکستان بننے کے بعد وہ ہجرت کر کے کراچی چلے گئے تھے۔

 کہتے ہیں کہ ہمدرد دوا خانہ کے بانی چاہتے تھے کہ پھلوں، پھولوں اور جڑی بوٹیوں کو ملا کر ایک ایسا بے نظیر و بے مثال نسخہ ترتیب دیا جائے جو ذائقے اور تاثیر میں اپنی مثال آپ ہو۔ایسا معتدل ہو کہ بچے سے بوڑھا تک ہر مزاج کا شخص اس کو استعمال کر سکے۔ اسی کے بعد روح افزا کی تیاری پر کام شروع ہوا۔۔ حکیم استاد حسن خان نے اپنی تمام حکمت اور خواص جڑی بوٹیاں کا تجربہ روح افزا کے نسخہ و ترکیب میں سمو دیا۔اگر صرف روح افزا کی تیاری پر ہی ان کو استاد کے لقب سے نوازا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔ افسوس اور حیرت کی بات ہے کہ یہ شخص گمنامی کی زندگی بسر کرگیا۔اتنا ضرور ہے کہ ہمدرد وقف دواخانہ و لیبارٹریز کی ویب سائٹ پر ان کا تعارف بحیثیت روح افزا کے اولین نسخہ ساز کی حیثیت سے درج ہے۔

کیا ہے نسخہ روح افزا

‎روح افزا میں شامل چیدہ چیدہ اجزاء اپنی تاثیر میں بےمثال تھے۔ روح افزا میں جن جڑی بوٹیوں کا استعمال کیا گیاان میں تخم خرفہ، منقہ، کاسنی، نیلوفر، گاؤ زبان اور ہرا دھنیا وغیرہ شامل ہیں۔ پھلوں میں سنگترہ، انناس، گاجر اور تربوز وغیرہ کو روح افزا کے نسخے میں استعمال کیا گیا ہے۔سبزیوں میں سے پالک، پودینہ اور ہرا کدو وغیرہ اور پھولوں میں گلاب، کیوڑہ، لیموں اور نارنگی کے پھولوں کا رس، خوشبو اور ٹھنڈک میں بےمثال خس اور صندل کی لکڑی وغیرہ کا بھی استعمال کیا گیا اور جو شربت تیار ہوا وہ بلاشبہ روح افزا کہلانے کا ہی مستحق تھا۔

awazurdu

 بانی ہمدرد حکیم عبد المجید (دائیں جانب) ہمدرو ۔دہلی کے نگراں رہےحکیم عبدالحمید(درمیان) اور(بائیں جانب) ہمدرد کراچی کے کرتا دھرتا حکیم محمد سعید

روح افزا بنا زندگی ادھوری

 روح افزا کو تہذیب کا بحصہ کہا جاتا ہے۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ ہم روح افزا کو صرف شربت کی شکل میں پینے کے شوقین نہیں رہے،اس شربت کو ’بگھار‘ بنا لیا گیا ۔کوئی دودھ میں تین بڑے چمچ روح افزاڈال کر پیتا ہے۔کوئی قلفی اور فلودہ پر روح افزا کا چھڑکاو کرانے کا عادی ہوگیا ہے۔یہی نہیں فروٹ کریم چاٹ، فیرنی، کسٹرڈ، کھیرکے ساتھ تربوز کے شربت میں بھی روح افزاکے ذائقہ کا چسکا لگ چکا ہے۔ہر کوئی مانتا ہے کہ ایک گلاس برف سے یخ بستہ خوشبودار اور شیریں روح افزا، جسم میں ایک عجیب سکون اور ٹھنڈک کا احساس جگا دیتا تھا۔

awazurdu

 روح افزا کا کئی دہائیوں قبل شائع ہوئے اشتہارات 

روح افزا سب پربھاری

 ایک دور آیا ۔ایک دور گیا۔ نہ جانے کتنے دور آئے اورکتنے گئے۔نہ جانے کتنے شربت اور کولڈ ڈرنکس کا سیلاب آیا مگر روح افزا جہاں تھا وہیں رہا۔ لال شربت تو پیچھے ہی رہے لیکن ’کالے پانی‘ خواہ پیپسی ہو یا کوک کوئی بھی روح افزا کی حکمرانی کو ختم نہیں کرسکا۔ لوگ جانتے ہیں کہ روح افزا کی حیثیت کیا ہے اور کولڈ ڈرنکس کی کیا حیثیت ہے۔کولڈ ڈرنکس کے بازار میں نہ جانے کیسے کیسے مقابلہ ہوئتے رہے اور ہورہے ہیں لیکن روح افزا کو اس سے کوئی فرق نہیں پڑا، اور وہ خود کو 'سوفٹ ڈرنکس کی دنیا میں حرف اول اور حرف آخر'' کہلواتا رہا۔کہتے ہیں کہ جب روح افزا کا نسخہ تیار کیا جارہا تھا تو اس وقت بازار میں دستیاب لال شربتوں سے ہی مقابلہ تھا۔ ان تمام سرخ شربتوں کو روح افزاء کا جواب یہ تھا کہ ۔‘‘نقل کرنا خوشامد کی ایک بہترین صورت ہے مگر آپ کی بدقستمی ہے کہ روح افزا کی نقل نہیں کی جا سکتی‘‘۔

’روح افزا‘ کا نام

لوگ کہتےہیں نام میں کیا رکھا ہے ،مگر ’روح افزا‘ کا معاملہ ہی اس کے برعکس ہے۔’روح افزا‘ کا تو نام ہی کافی ہے۔اس نام میں ہی پوری دنیا سمائی ہے۔ کہتے ہیں کہ ‘‘مثنووی گلزار نسیم’’ نامی کتاب میں ایک کردار تھا ’روح افزا‘ ۔ یہ نام اسی کتاب سے لیا گیا تھا۔یہ کتاب پنڈت دیا شنکر نسیم لکھنوی نے لکھی تھی۔ بوتل پررنگین لیبل ۔۔۔۔ اس دورمیں پرنٹنگ کا معیار ’لیتھو‘ تک محدود تھا۔ مگر ’روح افزا ‘ کی بوتل پر چسپاں لیبل ’رنگین‘ تھا۔ در اصل اس خوبصورت لیبل کو تیار کرنے والے کانام تھا مرزا نور احمد ،جو دہلی لیتھو پریس میں کیلی گرافر تھے۔اس زمانہ میں بوتل پر چسپاں ہونے والا لیبل ممبئی سے چھپ کر آتا تھا۔جو آج بھی برقرار ہے۔

awazurdu

روح افزا کا پہلا لیبل ۔ جسے کیلی گرافر مرزا انور احمد نے تیار کیا تھا

روح افزا ۔ برصغیر میں پھیل گیا

 تقسیم ملک کے ہمدرد خاندان بھی بٹ گیا تھا۔ حکیم عبدالمجید ہندوستان میں رہے،ان کے ایک بیٹے حکیم عبدالحمید نے ہندوستان کی سرزمین کو بسیرا بنایا جبکہ دوسرے بیٹے حکیم محمد سعید نے پاکستان کا رخ کیا۔ جہاں کراچی میں دو خستہ حال کمروں سے ہمدرد پاکستان کا آغاز کیا تھا۔لیکن یہ ’روح افزا ‘ کا جادو تھا کہ دیکھتے ہی دیکھتے پاکستان میں بھی ہمدرد ایک پہاڑ کی مانند کھڑا ہوگیا۔ آج پاکستانی روح افزا کا ہی عالمی بازار پر قبضہ ہے۔ خاص طور پر مشرق وسطی میں اسی کی اجارہ داری ہے۔ ہندوستان میں اس مشروب کو ہمدرد (وقف) لیبارٹریز میں تیار کیا جاتا ہےجبکہ پاکستان میں یہ شربت ہمدرد لیبارٹریز (وقف) میں تیار ہوتا ہے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ جب پاکستان کا بٹوارہ ہوا اور بنگلہ دیش کا وجود عمل میں آیا تو ڈھاکہ ہمدرد کا نام ’ہمدرد بنگلہ دیش ‘ ہوگیا۔ یعنی کہ ’روح افزا ‘ بر صغیر میں سکڑا نہیں بلکہ پھیلتا چلا گیا۔

‘کہاں گئی ’روح

 جس شربت کو لال شربتوں کا بادشاہ یا شہنشاہ کہا جاتا تھاافسوس کہ وہ زندہ تو ہے ،بازار میں دستیاب بھی ہے لیکن اس کے ’چٹخارے‘اب ویسے نہیں جیسے کبھی ہوا کرتے تھے۔ حکیم جی کی زندگی تک روح افزا بہرحال اپنا معیار ایک حد تک برقرار رکھے ہوئے تھا۔ لیکن ان کے بعد روح افزا بھی گویا اپنی روح سے محروم ہوگیا ہے۔ ہمدرد کےلئے ایک مسئلہ یہ بھی تھا کہ شربت کی تیاری میں شامل کچھ اجزاء اب انتہائی مہنگے داموں ملتے ہیں جس کی وجہ سے انہیں ہمدرد دواخانہ استعمال نہیں کرتا ۔لوگ کہتے ہیں کہ جو روح افزا ملک سے باہر جاتا ہے اس کا معیار الگ ہوتا ہے اور جو ملک کے بازار میں دستیاب ہے اس کا کچھ اور۔ شاید یہ قوت خریداری کا نتیجہ ہے ،جسے عوام بھی محسوس کرتے ہیں اور جس قیمت میں روح افزا دستیاب ہے اس کو ’خدا کا شکر‘ ادا کرکے ’واہ‘ ’واہ‘ کرکے نوش فرما رہے ہیں ۔ یہ رگوں میں دوڑنے والا سرخ شربت یا مشروب۔۔۔ صرف لال پانی نہیں بلکہ زندگی کی روانی کا نام ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ’ روح افزا‘ کا مقام کسی اور کے نصیب میں نہیں ہوسکا اور نہ ہی ہوگا۔