ساجد رسول ۔ سری نگر
کشمیر اپنے قدرتی حسن اور خوبصورتی کے لئے دنیا میں بے مثال ہونے کے علاوہ روایتی دستکاری کے لئے بھی کافی معروف ہے یہاں کی دستکاری میں پیپر ماشی، قالین بافی، نقش تراشی ، شال بافی وغیرہ قدیم صنعتوں میں شامل ہیں - لکڑی پر نقش تراشی کا فن اگرچہ معدوم ہوتا جارہا ہے تاہم اس آرٹ کے قدر شناس لوگ اس کی مہارت اور ہنر مندی کی وجہ سے یہاں کے نقش تراشوں کے قائل ہیں کشمیر کی دستکاری صنعت میں اس فن کی ایک مثال وادی میں قائم ہیں جس کی ملک بھر میں لوگ داد دیتے ہیں ۔
غلام نبی ڈارسے ملئے
سری نگر کے ایک قدیم ترین کاریگر سے جو عمر کے لحاظ سے اگرچہ سن رسیدہ ہیں تاہم ان کے ہاتھوں کی دستکاری اور ہنر جوانی کے رنگ بکھیر رہے ہیں - 70 سالہ غلام نبی ڈار لکڑی پر نقش نگاری کے معدوم ہورہے فن کو زندہ رکھنے میں ایک اہم کردار ادا کررہے ہیں - غلام نبی ڈار نے جس زمانے میں اس فن کو سیکھنا شروع کیاتھا تب کاریگروں اور دستکاروں کی لوگ بہت زیادہ قدر کرتے تھے لیکن آج جب کہ اس فن کے قدر شناس بہت کم ہیں غلام نبی اس کے باوجود اس فن کو آگے بڑھارہے ہیں ان کا خواب ہے کہ یہ ورثہ آئندہ آنے والی نسلوں تک باقی رہے اور کبھی اس کا خاتمہ نہ ہوں - غلام نبی ڈار کشمیر کے مشہور نقش تراشوں میں شمار کئے جاتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ کے ننانوے نام
حال ہی میں انہوں نے اللہ تعالیٰ کے ننانوے نام یعنی اسمائے حسنی پر مشتمل اپنے آپ میں ایک منفرد فن پارے کو اخروٹ کی لکڑی پر تراش کر منظر عام پر لایا جو ان دنوں کشمیر میں توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے- اللہ تعالیٰ کے ناموں کو جس خوبصورت انداز میں انہوں نے لڑکی پر نقشِ تحریر میں لایا لوگوں نے اسے بہت حد تک پسند کیا اور سوشل میڈیا پر اس حوالے سے انہیں کافی سراہا جارہا ہے - لوگ ان کے فن اور ہنر کی داد دیتے ہیں ۔
غلام نبی ڈار کے ہاتھوں میں نقش نگاری یا نقش تراشی کی جو ہنر مندی ہیں وہ کسی جادو سے کم نہیں کیونکہ وہ اپنی مہارت اور صلاحیت سے اخروٹ کی لکڑی کو مایہ ناز اور دلفریب نمونے میں تبدیل کرتے ہیں اور بعد میں وہ نمونے فروخت کرتے ہیں جو پھر رہائشی مکانوں، دکانوں اور دفاتروں کی زینت بن جاتے ہے- غلام نبی کے ہاتھوں سے تراشے گئے لکڑی سے بنے نمونے شہر سری نگر میں کافی زیادہ پسند کئے جاتے ہیں-
تجربہ 60سال کا
غلام نبی ڈار تب صرف 10 سال کے تھے جب ان کے والد کو کاروبار میں بڑا نقصان اٹھانا پڑا جس کی وجہ سے اچانک تمام ذمہ داریاں ان کے کندھوں پر آگئ- ڈار نے آواز دی وائس کے ساتھ ایک گفتگو کے دوران ڈار اپنے بچپن کو یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں "ہمیں ایسی غربت کا سامنا کرنا پڑا کہ میں اپنے لئے جوتا بھی خرید نہیں سکتا تھا اور اس ان دنوں میں اکثر اوقات کے دوران ننگے پاؤں چلا ہوں -میں اس سب کے باوجود اپنی تعلیم جاری رکھنا چاہتا تھا لیکن حالات اس قدر دشوار تھے کہ مجھے مجبوراً اسکول چھوڑنا- میں اس وقت تیسری جماعت میں پڑھتا تھا ۔ڈار کا کہنا ہے کہ یہ اللہ ہی کی مرضی تھی کہ ان کے ہاتھ سے ایک قلم تو چھن گیا لیکن اللہ نے انہیں وہ قلم عطا کیا کہ اگر وہ آج کچھ ہے تو اسی قلم کے سبب ہیں اور اسی کی وجہ سے آج تک انہوں نے لکڑی پر نقش نگاری کرکے سینکڑوں ایسے فن پارے بنائے جو گھروں، دکانوں، ریستوراں کے علاوہ مختلف دفاتروں میں سجاوٹ کے لئے رکھے جاتے ہیں۔
تربیت اور استاد
کسی بھی فن کےلئے استادکی ضرورت ہوتی ہے ،ڈار اس معاملہ میں خوش قسمت رہے۔انہوں نے پہلے تعلیم چھوڑنے کے بعد ایک مقامی نقش نگار کاریگر عبد الرزاق کے پاس کام کرنا اور اس فن کو سیکھنے کا عمل شروع کیا اور اس کے بعد اس فن میں اپنی صلاحیتوں کو مزید نکھارنے کے لئے ایک کاریگر عبد العزیز بھٹ کے پاس چلا گیا جہاں نقش نگاری کے اس فن میں میری دلچسپی بہت حد تک بڑھ گئی میں اور یہی وہ وقت تھا جب میں نے فیصلہ کیا کہ مجھے اس فن میں مہارت حاصل کرنی ہیں- ڈار نے کہا "میں اس فن سے اتنا مگن تھا کہ تیار شدہ مصنوعات سے ڈیزائن کاپی کرتا تھا اور اپنے گھر میں کچی لکڑی کی تختی پر اس ڈیزائن کو آزماتا تھا اس شوق اور دلچسپی کو دیکھ کر میرے استاد کاریگر نے مجھے اس فن کے راز سکھانے کے تمام اصول و ضوابط اور طریقہ کار سے واقف کرایا"
ایک باب کا نام ہے ڈار
آج جبکہ اس فن کے ساتھ غلام نبی ڈار کو ایک لمبا عرصہ ہوچکا ہیں انہیں کئ اعزازات سے نوازا گیا ہے اور اس دور کے میں کشمیر کے ایک منفرد اور ممتاز کاریگر کے طور معروف ہیں- ڈار کو 1995 میں لکڑی پر نقش و نگاری میں اپنے عمدہ کام کے لئے ایک قومی ایوارڈ سے نوازا گیاہے - یہ اعزاز انہیں لکڑی کے بنے ایک وال ہینگنگ ڈیزائن کے لئے دیا گیا جس میں انہوں نے بین المذاہب کے درمیان آپسی بھائی چارے کا ایک پیغام دیا تھا - اس فن پارے میں ڈار نے ایک کشمیری گاؤں کی عکاسی کی تھی جس میں ایک پنچایت میں ہندو، مسلم، سکھ اور عیسائی ممبران ایک جگہ بیٹھے ہوئے ہیں- اس فن پارے پر ڈار کو قومی ایوارڈ سے نوازا گیا سے نوازا گیا - ڈار کا ماننا ہے کہ قومی ایوارڈ حاصل کرنا ان کے لئے ایک بڑا اعزاز تھا اس کےعلاوہ1984 میں ڈار کو ریاستی ایوارڈ سے بھی نوازا گیا ہے- ڈار نے کئ بیرونی ممالک کا سفر کیا ہے جن میں عراق جرمنی اور تھائی لینڈ شامل ہیں۔
نقش نگاری کو بچاو
غلام نبی ڈار کا خیال ہے کہ نقش نگاری کے کاریگر اس فن سے ایک بہترین روزگار کما سکتے ہیں لیکن انہیں اس بات کا دکھ ہے کہ بہت سارے لوگ اس پیشہ کو کیریئر کے طور پر نہیں لے رہے ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ حکومت کو ایک ایسے مکمل ادارے کو بروئے کار لاناچاہئے جہاں لکڑی پر نقش نگاری کے فن کو سکھایا جائے اور اس میں دلچسپی رکھنے والے کاریگروں کو پیشہ ورانہ طریقے سے تربیت دی جائے ۔
ان کا خواب ہے کہ یہ فن آنے والی نسلوں تک پہنچے اور ہمیشہ زندہ رہے - انہوں نے اپنے بیٹے عابد احمد کو بھی یہ فن سکھایا ہے - عابد اپنے والد کے نقش قدم پر چل رہا ہے اور وہ بھی اس فن میں مہارت حاصل کر چکے ہیں - ڈار کا کہنا ہے " مجھے خوشی ہے کہ میرے فن کے اس جذبے کو دیکھتے ہوئے میرے بیٹے نے اس ورثے کو آگے بڑھانے کا فیصلہ کیا ہے۔ لیکن اس دور میں بہت کم نوجوان اس فن کی اور دلچسپی لے رہے ہیں جو ایک پریشانی کی علامت ہیں" انہیں اس بات کا خدشہ ہے کہ اگر اسی طرح چلتا رہا تو ایک دن لکڑی پر نقش نگاری کا یہ فن معدوم ہوجائے گا-۔