عنبرین نواز۔ وادی میں تجارتی راہ پرایک مثالی مسافر

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 12-02-2021
عنبرین نواز کی کہانی وادی میں ہونے والی تبدیلیوں کی کہانی ہے
عنبرین نواز کی کہانی وادی میں ہونے والی تبدیلیوں کی کہانی ہے

 

 انو راے / سری نگر

کشمیر کا نام سنتے ہی جہلم-چناب اور دیودار کے علاوہ جو چیزآنکھوں کے سامنے ابھرتی ہے وہ ہے فرن۔ ہاں فرن ایک لمبے کرتے کی طرح کا ایک لباس ہوتا ہے جس میں کشمیر کی پوری خوبصورتی سمٹ کر آجاتی ہے ۔ لیکن پریوں جیسی خوبصورت کشمیری لڑکیوں کے لئے خواب دیکھنا اور ان کو پورا کرنا اتنا خوبصورت احساس کبھی نہیں رہا۔

کشمیر میں جاری دہشت گردی کے ناموافق حالات میں خواب کا تصور ہی بذات خود ایک بڑی چیز ہے، اس کی تکمیل تو اس سے بھی زیادہ محال شئے ہے- لیکن روایات کی قید سے آزاد عنبرین نواز کے خواب پرواز کرنے کو بیقرار تھے ۔ مسلم برادری سے تعلق رکھنے کےعلاوہ عنبرین  ایک لڑکی بھی تھیں جس کی وجہ سے کاروبار کرنا واقعی محال عقلی تھا۔

وہ کہتی ہیں کہ لوگوں نے ان سے کہا ، کیا آپ بطور لڑکی کاروبار کریں گی؟ خاندان میں آج سے پہلے کسی نے ایسا نہیں کیا؟ تم دکان لگانے کے بارے میں کیوں سوچ رہی ہو؟ ہمارا معاشرہ کیا کہے گا؟

بہت سے فضول سے مشورے بھی موصول ہوئے - کسی نے کہا کہ گریجویشن مکمل کرنے کے بعد کوئی مناسب سی نوکری تلاش کر لو- پھر عنبرین جب گریجویشن کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد نوکری کی تلاش میں نکلیں تو وہاں کا ماحول کچھ اور تھا۔ ان سے کہا گیا کہ آپ صرف گریجویٹ ہیں ، ہم آپ کو نوکری کیوں دیں؟ ہمارے یہاں پی جی اور ماسٹرز کر کے لوگ بیٹھے ہوئے ہیں۔

عنبرین مایوس ہوگئیں لیکن ہمت نہیں ہاری۔ انہوں نے اس دفتر سے نکلتے ہی تہیہ کیا کہ نوکری کی تلاش میں مزید بھٹکنا نہیں۔ اب میں وہ کچھ کروں گی جس سے دوسرے لوگوں کو ملازمت مل سکےاور پھر عمبرین نواز کے آن لائن اسٹور'دی گرینڈ اٹایر" کی کہانی شروع ہوئی۔عنبرین کا کہنا ہے کہ چونکہ اس کے دادا،ابواور بھائی جان سب کاروبار کرتے ہیں ، لہذا انہوں نے کنبہ کے سامنے اپنا کاروبار بھی شروع کرنے کی بات کی۔ لیکن کسی نے بھی اس معاملے پر خصوصی توجہ نہیں دی۔

ان دنوں کشمیر میں بہت سردی تھی ، پھر وہ دبئی میں ایک رشتہ دار کے گھر گئیں اور وہاں سے واپسی کے دوران کچھ فرن یعنی کشمیری لباس لے کر واپس آگئں ۔ لیکن اب دقت اس کو بیچنے کی تھی ۔ پھر انہیں سوشل میڈیا کے استعمال کا خیال آیا۔ انہوں نے انسٹاگرام پر ایک پروفائل بنایا اور اس کے ساتھ فرن کی تصاویر بھی شیئر کی۔ عنبرین  کو توقع نہیں تھی کہ اسے وہاں کوئی خریدار ملے گا لیکن ان کی توقع کے برخلاف ان کے تمام فرن ہاتھوں ہاتھ فروخت ہوگئے۔ اس کے بعد انہیں گاہکوں کی طرف سے پیغامات آنے شروع ہوگئے کہ ہمیں مزید فرن کی ضرورت ہے۔

اب توعنبرین  نے کچھ رقم اکٹھی کرلی تھی ، لہذا اس نے اپنے گھر کے قریب لال بازار میں ایک چھوٹا کمرا کرایہ پر لیا اور پھر مقامی گاہک وہاں آنا شروع ہوگئے۔ آہستہ آہستہ ، فرن کی فروخت میں اضافہ ہونے لگا - لوگوں نے اپنی مرضی کے مطابق فیرن کا آرڈر دینا شروع کردیا۔ پھر عمبرین کو خیال آیا کہ کیوں نہ وہ اپنے گھر کے آس پاس کی لڑکیوں کو بھی کام نہیں دے۔ اس نے انسٹاگرام کے ذریعہ ایسی لڑکیوں سے رجوع کیا جو اپنے لئے کچھ کرنا چاہتی تھیں اور اپنے پاؤں پر کھڑا ہونا چاہتی تھیں ۔

پھر عنبرین نے ان لڑکیوں سے جو کشمیری کڑھائی کا فن جانتی تھیں ، بھی پوچھا کہ کیا وہ ان کے لئے کام کرنا چاہیں گی؟ اور جواب ہاں میں ملا۔ اس کے بعد ، عنبرین نے کبھی پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔ آج ان کی فرم پورے ہندوستان میں فرن پہنچا رہی ہے۔ عنبرین بہت سے لوگوں کو آن لائن اسٹور کے ذریعے کام دینے میں کامیاب رہی ہیں ۔ ان کا شمار کشمیر کی ابھرتی ہوئی خاتون کاروباریوں میں ہوتا ہے۔ کل تک ، وہی لوگ جو یہ کہہ رہے تھے کہ عنبرین  بچی ہے وہ کاروبار کیا کرے گی ، آج وہ اپنی خود کی بیٹیوں کو خواب دیکھنے اور ان کی تکمیل کے لئے آمادہ رہے ہیں۔

آج ،عنبرین  نے ماسٹرز کی ڈگری بھی مکمل کی ہے اور اب وہ سوشل ورک میں اپنی دوسری ڈگری مکمل کرنے والی ہیں ۔ عمبرین  نواز کی کہانی وادی میں ہونے والی تبدیلیوں کی کہانی ہے۔